تہذیب للازہری
اس کتاب کو بھی سیوطیؒ نے معتبرات لغت میں شمار کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے: ’’والخاتم والخاتم من اسماء النبیﷺ فی التنزیل ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای اخرہم (لسان العرب)‘‘ {اور خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح نبی کریم کے ناموں میں سے ہیں اور قرآن عزیز میں ہے کہ نہیں ہیں آنحضرتﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ۔ لیکن آپ اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں آخری نبی ہیں۔}
اس میں کس قدر صراحت کے ساتھ بتادیا گیا کہ خاتم بالکسر اور خاتم بالفتح دونوں آنحضرتﷺ کے نام ہیں اور قرآن مجید میں خاتم النبیین سے آخر النبیین مراد ہے۔ کیا ائمہ لغت کی اتنی تصریحات کے بعد بھی کوئی منصف اس معنی کے سوا کوئی اور معنی تجویز کر سکتا ہے؟
لسان العرب
لغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب وعجم میں مستند مانی جاتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے: ’’خاتمہم (بالکسر) وخاتمہم (بالفتح) ای اٰخرہم عن للحیانی ومحمد خاتم الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام‘‘ {خاتم القوم بالکسر وخاتم القوم بالفتح کے معنی آخر القوم کے ہیں اور انہیں معنی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء یعنی آخر الانبیاء ہیں۔}
اس میں بھی بوضاحت بتلا دیا گیا کہ خاتم بالکسر کی قرأت پڑھی جائے یا بالفتح کی ہر صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیاء کے معنی آخر الانبیاء کے ہیں۔
ایک قاعدہ
لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد ہوتا ہے۔ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معنی ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم کو تنہا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
لغت عرب کے تتبع (تلاش) کرنے اور کتب لغت کی ورق گردانی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہو تو اس کے معنی آخر ہی