پہلی آیت
’’ماکان محمد ابا احد من رجالم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (احزاب:۴۰)‘‘ {نہیں ہیں محمدﷺ تمہاری مردوں میں سے کسی کے باپ۔ لیکن آپ اﷲ کے رسول ہیں اور تمام انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور اﷲ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔}
اس کا شان نزول اور اس کی تفصیل کتب تفاسیر میں موجود ہے۔ یہاں صرف آیت کے اس پہلو سے بحث کی جائے گی۔ جو ’’مسئلہ مانحن فیہ‘‘ سے متعلق ہوگی۱؎۔
خدائے علیم وخبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر اور غیرمعتبر لکھی گئیں اور کہاں کہاں اور کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت میں ہے۔ بلکہ صرف چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں۔’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہدیہ ناظرین کر کے لفظ خاتم کے اصلی اور حقیقی معنی پیش کرتے ہیں۔ (ختم النبوۃ فی القرآن)
مفردات القرآن
یہ کتاب امام راغب اصفہانیؒ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔ وہ اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں۔ ’’وخاتم النبیین لا نہ ختم النبوۃ ای تممہا بمجیئہ (مفردات راغب ص۱۴۲)‘‘ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؐ نے نبوت کو ختم کردیا ہے۔ یعنی آپؐ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام کر دیا ہے۔
المحکم لا بن السیدہ
لغت عرب کی وہ معتمد کتاب ہے جس کو علامہ سیوطیؒ نے ان معتبرات میں شمار کیاہے جن پر تفسیر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جاسکے۔ ’’وخاتم کل شیٔ وخاتمتہ عاقبہ واٰخرہ (لسان العرب)‘‘ {اور خاتم اور خاتمہ ہر شے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔}
۱؎ ان تمام لغات ومباحث کا مدار حضرت مولانا واستاذنا محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان کی تصنیف کردہ کتاب ختم نبوت ہے۔