بھلا اس سے بڑھ کر فاقہ مستی کا کوئی موثر علاج تھا؟ اور تھا کوئی اور ذریعہ جس سے یوں مال ودولت جمع ہوسکتی۔ آخر یہی افسون چلایا۔ جو ناواقفوں پر کام کرگیا۔ انہیں مسحور کر لیا اور وہ بندہ بیدام بن گئے۔ پھر کیا تھا۔ میرزاقادیانی خود ہی فرماتے ہیں کہ: ’’نقد اور جنس ہر ایک قسم کے تحائف اس کثرت سے لوگوں نے دئے اور دے رہے ہیں جن کا میں شمار نہیں کر سکتا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۵۰، خزائن ج۲۲ ص۲۶۲)
قصہ کوتاہ مرزاقادیانی کی تنگی آسائش سے بدل گئی۔ مالی فتوحات ہونے لگیں۔ وہ دونوں ہاتھ پسار کر طلب زر کرتے اور کوتاہ نظر بے سمجھ مرید جھولیاں بھر بھر کر دیتے۔ لکھتے ہیں کہ: ’’مجھ کو مکان فراخ کرنے کا دوبارہ الہام ہوا ہے۔ جماعت مخلصین دو ہزار روپیہ جلد بہم پہنچائیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۲۷ ملخص)
ان حالات میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ الزامات محض غلط اور سراسر بے بنیاد تھے کہ براہین احمدیہ کی قیمت وصول کر کے کھالی۔ ’’رسالہ سراج المنیر‘‘ کے نام سے چودہ سو روپیہ اڑایا۔ مینارۃ المسیح کے نام سے کھایا۔ بہشتی مقبرہ اور لنگر خانہ کے نام سے ہضم کر گئے۔ مگر جب عدالت میں پوچھا گیا تو کہا کہ میں نبیوں کی طرح حساب نہیں رکھتا۔
خیر یہ تو مال ودولت اور حصول آرام وآسائش کی باتیں ہیں اور ان کی طمع دنیا اور حرص پر دلالت کرتی ہیں۔ کوئی زرپرست ہو۔ بلا سے ہوا کرے۔ لیکن وہ دنیا کی عافیت تو تنگ نہ کر دے اور لوگوں کے لئے پیغام اجل تو ثابت نہ ہو۔ گالیاں دینے والا نہ ہو اور اس کے منہ سے غلاظت تو نہ نکلے۔ کیا یہ بھی خصوصیات نبوت ہیں۔ مگر نہیں ہم بھول گئے ہمیں کیا حق ہے کہ جناب مرزا کے قول وفعل پر معترض ہوں اور حجت بڑھائیں۔ ان کے تو ماشاء اﷲ اگلے پچھلے گناہ خداوند غفور الرحیم نے بخش دئیے۔ پھر جنہیں دست قدرت نے مٹادیا اور جو خدا نے بھلادئیے ہم ان کا ذکر کیوں کریں۔ الہام ہوتا ہے: ’’اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک‘‘ یعنی اے مرزا جو چاہے سو کر ہم نے تجھے بخش چھوڑا ہے۔ (براہین احمدیہ ص۵۵۸، خزائن ج۱ ص۶۶۷)
اوّل اوّل تو بعض برگزیدہ اشخاص کو بھی دھوکا ہوا۔ لیکن آخر سب نے اس کی حقیقت کو معلوم کر لیا۔ مسلمانوں نے اسے دجال کے نام سے منسوب کیا۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ جھوٹا نبی ہے۔ آریوں نے اس کو فریبی جانا اور ان سب نے مل کر اس کی خوب ہی تواضع کی اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کچھ ناروا کام نہیں کیا۔ کیونکہ اگر وہ شخص نبی ہوسکتا ہے جو خدا کے سچے نبیوں کی اہانت