سے بہتر اپنی حالت کا سدھار اور مالی مشکلات کا حل نظر نہ آیا کہ دعویٰ نبوت کریں اور ہم کسی غیر کے قول کو بطور سند کیوں پیش کریں۔ جب کہ مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ سے ہمارا دعویٰ ثابت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’جب میں نے براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف تھی تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۳۶، خزائن ج۲۲ ص۳۵۰)
یہ تھا بے روزی اور مفلسی کا عالم اور اس طرح ناداری، سوہان روح ہورہی تھی۔ جب شادی کے بارے میں جو دہلی میں ہوئی تھی الہام ہوا تو آپ کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ: ’’شادی کے اخراجات کو کیونکر میں انجام دوںگا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں اور نیز کیونکر میں ہمیشہ کے لئے اس بوجھ کا متحمل ہو سکوں گا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۳۶، خزائن ج۲۲ ص۲۴۷)
اور پھر فرماتے ہیں کہ: ’’جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیںگے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہی کی زندگی سے وابستہ تھے۔ اس لئے خیال گذرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیںگے اور یہ سارا خیال بجلی کی طرح چمک کر ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گذر گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۱۰، خزائن ج۲۲ ص۲۱۹)
مرزاقادیانی پھر اپنی ابتدائی حالت اور حاجت وافلاس اور دعویٰ نبوت کے بعد امارت وخوشحالی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں کہ: ’’ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھا۔ جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویہ گمنانی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشین گوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپے ماہوار بھی آئیںگے۔ مگر خداتعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کوخاک میں ملاتا ہے۔ اس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱)