میں ) واجب ہیں ، عارضی حالات اور خاص موقع کا اس میں دخل نہیں جیسے زکوٰۃ، صدقہ فطرۃ وغیرہ خواہ کوئی محتاج اور مستحق پیش نظر ہو یا نہ ہو، اپنے مال سے خاص مقدار میں زکوٰۃ صدقہ نکالنا ضروری ہے، پھر مستحق کو تلاش کرکے اس تک پہنچانا ضروری ہے ان کو واجبات موظّفہ کہتے ہیں ۔
دوسرے وہ واجبات کہ اگر کوئی مستحق معلوم نہ ہو تو اسکا تلاش کرنا ضروری نہیں اس درجہ میں تو وہ نفل ہے، لیکن اگر مستحق کوئی سامنے آجائے اور اس کی محتاجگی اضطرار کی حد تک ہو (یعنی بالکل مجبوری کی حالت ہو) یا کسی دینی کام میں خرچ کی فوری ضرورت پیش آجائے اور اس کو پورا کرنا ضروری ہو تو اس وقت اس میں خرچ کرنا واجب ہوگا، کہیں علی الکفایہ (یعنی سب لوگوں پر مجموعی طور پر کہ اگر کوئی ایک اس ضرورت کو پورا کردے تو سب بری ہوجائیں گے ورنہ سب گہنگار ہوں گے) اور کہیں علی العین (یعنی ہر ہر فرد پر اس کی ضرورت کو پورا کرنا ضروری ہوگا)۔
مثلاً کوئی مسافر محلہ کی مسجد میں اترے اور سب محلہ والے اپنے گھر وں میں کھائیں پئیں اور اس کو نہ پوچھیں تو سب گہنگار ہوں گے، اس وقت اس کی مدد کرنا (یعنی قیام و طعام کا انتظام کرنا)سب محلہ والوں پر واجب ہے اور اس کی مدد نہ کرنے کی صورت میں جس کو خبر پہنچے (یعنی اس کے حال کی اطلاع ہو) ان سب پر اس کی مدد کرنا واجب علی الکفایہ ہے۔
اور اگر کوئی کھانا لے کر بیٹھا اور کھانا اس کی ضرورت زائد ہے اور ایسے میں کوئی بھوکا آگیا جس کی جان بھوک سے نکل رہی ہے (یعنی بھوک سے بے تاب ہے) اور اس نے آکر اس شخص سے سوال کیا تو حضرت استاذ مولانا محمدیعقوب صاحبؒ فرماتے تھے کہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس شخص پر اس سوال