اور اگر وہ حرام مال حلال میں مل گیا ہو تو اگر مالک مستحق معلوم ہیں تو اس کا بدل واپس کردے۔ (امداد الفتاویٰ ۴؍۱۴۵)
(خلاصہ یہ کہ) حرام مال وارثوں کے لیے بھی حرام ہے پس اگر ارباب حقوق (یعنی اس حرام مال میں جن کا حق آتا ہے) وارثوں کو معلوم ہیں تو اگر بعینہ ان کی چیز محفوظ ہے تو اس کو ورنہ اس کی قیمت واپس کردیں ۔ اور اگر معلوم نہیں ہیں تو (دو صورتیں ہیں ) اگر مال حرام معین اور ممتاز ہو تو اس کو مالک کی نیت سے صدقہ کردیں ۔ اور اگر ملا ہوا ہے تو اگر اس کی قیمت کی مقدار معلوم ہے تو اس کو صدقہ کردیں ورنہ تخمینہ (اندازہ کرکے) صدقہ کردیں ، انشاء اللہ تعالیٰ آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا۔ (امداد الفتاویٰ ۴؍۳۵۰)
سوال ۱۸۱: زید کا باپ عمرو رشوت خور تھا رشوت کے مال سے اس نے ایک مکان اور جائداد خریدی جو زید کو میراث میں ملی، زید گھریلو حالات سے بخوبی واقف ہے، اور کہتا ہے کہ یہ کل رشوت کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اور ُکل نہیں تو اکثر مال رشوت کا ضرور ہے۔ زید کواس مکان میں رہنا یا اس کو بیچنا اس سے نفع اٹھانا حلال ہے یا نہیں ؟ حلال نہیں تو کیا کرے؟
الجواب: فی الدر المختار ان علم ارباب الاموال وجب ردہ علیہم والافان علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ عنہ صاحبہ وان کان مالاً مختلطاً مجتمعا من الحرام ولا یعلم اربابہ ولا شیئاً منہ بعینہ حل لہ حکماً والاحسن دیانۃ التنزہ عنہ اھـ۔ (در مختار)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جن سے رشوت لی ہے اگر وہ معلوم ہوں یا کوئی خاص چیز رشوت میں لی ہوئی بعینہ موجود ہو تب تو زید کو اس سے نفع اٹھانا حلال نہیں ، ورنہ فتویٰ کی رو سے حلال ہے تقو یٰ کے خلاف ہے۔
(امداد الفتاویٰ ۴؍-۱۴۸)