أفتیٰ بعض الفقھاء حین شاع صوم أیام البیض في زمانہ بکراھتہ لئلا یؤدي إلیٰ اعتقاد الواجب مع أن صوم أیام البیض مستحب۔
اور جو امر مباح اس حد تک پہنچ جائے کہ لوگ اس کو ضروری اور واجب کے درجہ میں سمجھنے لگیں اور نہ کرنے والوں پر طعن کرنے لگیں ، وہ مکروہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض فقہاء نے جب ان کے زمانے میں ایام بیض کے روزوں کا زیادہ اہتمام ہونے لگا، تو اس کے مکروہ ہونے کا فتویٰ دیا، تا کہ واجب اعتقاد کر لینے تک نوبت نہ پہنچ جائے، باوجود یہ کہ ایامِ بیض کے روزے مستحب ہیں ۔ (مجالس الابرار، مجلس:۵۰، ص:۲۹۹)
فقہ کا متفقہ اور مسلمہ قانون ہے کہ مستحب کو اس کے درجہ سے بڑھا دیا جائے، تو وہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ واستنبط منہ أن المندوبات ینقلب مکروھاً إذا خیف أن یرفع عن مرتبتہ۔ (مجمع البحار،ج:۲، ص:۲۴۴)
اگر کسی کی نیت واعتقاد غلط نہ ہو پھر بھی دوسروں کے عقیدہ کے فساد کے خوف سے اور اہلِ بدعت کی مشابہت کی وجہ سے منع کیا جائے گا، کیوں کہ یہ تو بدعتیوں کا ایک شعار بن گیا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں : مھما صارت السنۃ شعاراً لأھل البدعۃ، قلنا بترکھا خوفاً عن التشبہ بھم۔ جب کوئی سنت بدعتیوں کا امتیازی شعار بن جائے تو ہم ان کے مشابہہ بن جانے کے خوف سے اس کے ترک کرنے کا حکم دیں گے۔ (احیاء العلوم، ج:۲، ص:۲۷۰)
آپ نے جو احادیث لکھی ہیں ، ان کے متعلق میں کچھ ذکر کروں بجائے