آگے تحریر کرتے ہیں کہ ’’ پس حق اس میں اس قدر ہے، کہ جو کوئی بامید زیادتی روشنائی بصر مثلاً:از قبیلہ اعمال مشایخ جان کر یا بتوقع فضل ان کتب پر لحاظ اور ترغیب وارد پر نظر رکھ کر بے اعتقاد سنیتِ فعل وصحتِ احادیث وشناعت ترک اسے عمل میں لائے، اس پر بنظر اپنے نفس فعل واعتقاد کے خیر کچھ مؤاخذہ بھی نہیں ، کہ فعل پر حدیث صحیح نہ ہونا اس فعل سے نہی ومنع کو مستلزم نہیں … اور پنچایت (فاتحہ خوانی) کے وقت اس فعل کا ذکر کسی کتاب میں نہیں دیکھا گیااور فقیر کے نزدیک بر بنائے مذہب ارجح واصح غالباً ترک زیادہ انسب والیق ہونا چاہیے۔(ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال، ص:۱۲، ۱۳، ۱۳۳۸ھ، حسنی پریس بریلی میں طبع ہوئی ہے)
مذکورہ فتوے کا حاصل یہ کہ مولوی احمد رضا خاں صاحب کے نزدیک مجلس فاتحہ خوانی جیسے مواقع پر انگوٹھے چومنے کا ثبوت کسی بھی کتاب میں نہیں ہے،اس لیے ان کا نظریہ یہ ہے کہ نہ چومنا ہی زیادہ مناسب ہے۔
اور یہ بات کہ اذان کے وقت انگوٹھا ثابت ہے، اس کے متعلق بھی وہ فرماتے ہیں کہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور اس شخص کو غلطی پر مانتے ہیں ، جو اس کا قائل ہو کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے یا جو شخص نہ چومنے کو بُرا سمجھے، صرف آنکھ کی روشنی کے علاج کے لیے مانتے ہیں ، سنت نہیں سمجھتے، اور ان احادیث کو ضعیف اور مجروح مانتے ہیں ، جن میں اذان کے وقت چومنے کی کوئی فضیلت آئی ہے، اور چومنے کی اجازت اس شرط پر دیتے ہیں کہ (۱) سنیت کا اعتقاد نہ ہو (۲) اس کے بارے میں جو حدیث ہے اس کو صحیح نہ سمجھے (۳) نہ چومنے والے کو بُرا نہ جانے وغیرہ، یہ ہے مولانا احمد رضاخاں صاحب کے نزدیک مسئلہ کی حقیقت! جس کو سنی وہابی بلکہ کفر