اس کے بعد بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ یہ آشوبِ چشم کا مجرب علاج ہے۔ پس اس کو سنتِ ہدیٰ سمجھ کر بطورِ عبادت کرنا بے اصل ، بلکہ بدعت ہے، اس لیے ترک لازم ہے، ہاں اگر کوئی آشوب چشم کے علاج کی غرض سے اس طرح کرے، جس سے دوسروں کو سنت وثواب ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو درست ہے۔ کنز العمال میں ہر طرح کی روایات ہیں ، موضوعات بھی ہیں ، ردالمحتار میں اس کو ’’کنز العباد‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے، جس کا درجہ کنز العمال سے بھی کم تراور ضعیف ہے، اس میں ایسی روایات ِ ضعیفہ موضوعہ اور مسائلِ غریبہ ہیں ، جن پر فتویٰ ہر گز نہیں دیا جا سکتا ہے۔النافع الکبیر میں اس کتاب کا حال مذکور ہے، فردوس دیلمی کے متعلق ’’بستان المحدثین‘‘ ص: ۶۱، مصنف کا حال نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ :’’ اما در اتقانِ معرفت وعلم او قصور یست، در سقیم وصحیح احادیث تمیز نمی کند، وسند او دریں کتاب فردوس موضوعات وواہیات تودہ تودہ مندرج اھ‘‘۔ قہستانی اور فتاویٰ صوفیہ سے بھی استحباب نقل کیا ہے، خود علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں : ’’القہستاني کجارف سیل وحاطب لیل اھ‘‘۔
ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے :
’’لقد صدق عصام الدین في حق القھستاني أنہ لم یکن من تلامذۃ شیخ الإسلام الھروي، لا من أعالیھم ولا من أدانیھم، وإنما کان دلال الکتب في زمانہ، ولا کان یعرف بالفقہ وغیرہ بین أقرانہ، ویؤیدہ أنہ یجمع في شرحہ ھٰذا بین الغث والسمین والصحیح والضعیف من غیر تحقیق وتدقیق، فھو