سے زیادہ حضور اکرم ﷺ کا عاشق ہوں اور صحابہ کرام سے زیادہ محبت رکھنے والا ہوں ، وہ حقیقت میں پاگل ہے، بے وقوف اور احمق ہے۔ اس لیے کہ صحابۂ کرام ؓ سے بڑا عاشق اور محب کوئی اور نہیں ہو سکتا‘‘۔(ماہنامہ البلاغ، ربیع الاول: ۱۴۳۵ھ، ص:۷)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
’’وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ ھو بدعۃ، لأنہ لو کان خیرا سبقونا إلیہ إنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال خیرٍ إلا وقد بادروا إلیہا‘‘۔
’’اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو فعل اور قول جناب ِ رسول اللہ ﷺ کے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہو تو اس کا کرنا بدعت ہے، کیوں کہ اگر وہ کام اچھا ہوتا تو ضرور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہم سے (بہت) پہلے اس کام کو کرتے، اس لیے کہ انہوں نے نیکی کے کسی پہلو اور کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنۂ عمل نہیں چھوڑا، بلکہ وہ ہر کام میں سبقت لے گئے‘‘
الغرض! اس کے خلاف گم راہی اور بدعت ہے، اُخروی تباہی بھی (اعاذنا اللہ منہ) آج جو دلائل اہلِ بدعت پیش کرتے ہیں ، بعینہا یہ دلائل اُس وقت بھی موجود تھے، مگر نہ تو اُن حضرات کو اِن دلائل سے بدعت کا جواز معلوم ہوا اور نہ ہی اِن میں اُن کے نزدیک کوئی آنکھ کو بھانے والی حکمت وعبرت آشکارا ہوئی، لیکن آج اُن ہی دلائل