ملا علی قاریؒ کا مذکورہ کلام (کہ روایت اگرچہ مرفوعاً ثابت نہیں ، موقوفاً ثابت ہے) اس لیے بھی محلِ نظر ہے کہ ملا علی قاریؒ ہی کے نزدیک حافظ سخاویؒ یا دیگر محدثین کا یہ کلام (لا یصِحُّ) لم یثْبُتْ کے معنیٰ میں بھی ہوتا ہے، مثلاً: ملا علی قاریؒ ’’الأسرار المرفوعۃ‘‘ میں ہی حدیث: ’’من طاف بھٰذا البیت أسبوعاً…إلخ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
’’……لا یقال: إنہ موضوع، غایتہ أنہ ضعیف، مع أن قول السخاوي: لا یصح، لا ینافي الضعف والحسن، إلا أن یرید بہ أنہ لا یثبت، وکأن المنوفي فھم ھٰذا المعنی حتی قال في ’’مختصرہ‘‘: إنہ باطل، لا أصل لہ۔ (الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ، حرف المیم، رقم الحدیث: ۵۰۱، ص: ۳۳۵م المکتب الإسلامي)
اس کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملا علی قاریؒ کے نزدیک بھی لفظِ لا یصِحبعض اوقاتلم یثْبُت کے معنی پر محمول ہوتا ہے۔ زیرِ بحث موقع پر اگرچہ ملا علی قاریؒ نے روایت کے موقوف ہونے کا رجحان ظاہر فرمایا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ لا یصح یہاں لم یثْبُتکے معنی میں ہے، جیسا کہ علامہ زاہد الکوثریؒ اور شیخ ابو غدۃ ؒ کے کلام سے ظاہر ہے، اس لیے ملا علی قاریؒ کا کلام ان کی ہی تصریحإت کی روشنی میں محلِ نظر ہے، اور صحیح یہ ہے کہ یہاں (لا یصِحُّ) لم یثْبُتْ کے معنی پر محمول ہے، جس کے نتیجے میں مذکورہ حدیث باطل اور موضوع کے حکم میں ہو گی۔