کہ ’’صحیح‘‘کے بعد ’’حسن‘‘ کا درجہ باقی ہے، لہٰذا یہ حدیث اگر ’’حسن‘‘بھی ہو تو بھی عمل کے لیے کافی ہے‘‘۔)تو بھی اس بات کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے کہ کتبِ ضعفاء میں یا کتب موضوعات میں جب کسی حدیث کے بارے میں ’’لا یصحّ‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ’’موضوع‘‘ ہی ہوتا ہے ، نہ کہ حسن یا ضعیف۔الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے ’’المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع‘‘ کے مقدمہ میں اس بات کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو:
’’قولھم في الحدیث:’’لا یصح‘‘، أو ’’لا یثبتُ‘‘ ……ونحو ھٰذہ التعابیر إذا قالوہ في کتب الضعفاء أو الموضوعات، فالمراد بہ أن الحدیث المذکور موضوع، لا یتصف بشییٔ من الصحۃ؛ وإذا قالوہ في کتب أحادیث الأحکام، فالمراد بہ نفي الصحۃ الاصطلاحیۃ‘‘۔ (المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع، ص: ۲۷، قدیمي)
بلکہ علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ نے تو اس بات کو پوری وضاحت کے ساتھ صاف صاف بیان فرما دیا ہے کہ کتب ضعفاء میں جس حدیث کے بارے میں ’’لا یصح‘‘ کہہ دیا جائے ، تو اس سے ’’حَسن‘‘ مراد نہیں لے سکتے، بلکہ وہ حدیث باطل ہے، ملاحظہ ہو:
’’إن قول النقاد في الحدیث: ’’إنہ لا یصح‘‘ بمعنیٰ أنہ باطل في کتب الضعفاء والمتروکین، لا بمعنیٰ أنہ حسن، وإن لم یکن صحیحاً، کما نص علیٰ ذٰلک أھل الشأن، بخلاف کتب الأحکام، کما أوضحت ذٰلک في مقدمۃ ’’انتقاد المغني‘‘۔ (مقالات