ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً۔
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکی رحمہم اللہ نے ’’لا یصح‘‘ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنۃ، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیۃ)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرۃ الموضوعات لطاھر الفتني، باب الاذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیۃ، ملتان)
(النخبۃ البہیّۃ في الأحادیث المکذوبۃ علی خیر البریۃ،رقم الحدیث:۳۱۶،ص:۱۷،المکتب الإسلامي)
اور پھر اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے علامہ سخاویؒ اور علامہ شامی ؒ نے علامہ جرّاحی ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہے :’’ مجموعہ احادیث میں اس مسئلہ کے بارے میں کوئی صحیح ، مرفوع حدیث نہیں ہے‘‘، چنانچہ فرماتے ہیں : ’’ولم یصِحَّ في المرفوع من کل ھٰذا شییٌٔ‘‘ ، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنۃ، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیۃ)