دوسری بحث: چند کتبِ فقہ میں اس فعل کے استحباب کا ذکر۔ اس میں دو پہلو قابلِ ذکر ہیں :
۱۔ مذکورہ ’’قولِ استحباب ‘‘کے لیے مستدل حدیث کی حیثیت۔
۲۔اس حدیث کے ماخذ کا بیان۔
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے، وہ ’’حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ‘‘اور ’’المقاصد الحسنۃ‘‘میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ’’حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ‘‘سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق رضي اللہ عنہ مرفوعاً:’’ مَن مسَح العین بباطن أنملۃ السبابتین بعد تقبیلھما عند قول المؤذن ’’أشھد أن محمدا رسول اللہ‘‘، وقال: ’’أشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ، رضیت باللہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ﷺ نبیِّاً‘‘، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ ۔
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع المؤذن، یقول:’’أشھد أن محمداً رسولُ اللہ‘‘ مرحباً بحبیبي، وقرۃ عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ