تبصرہ کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کتب کا ایک بڑا حصہ ضعیف اور غیر محقق اقوال پر مشتمل ہے، حضرات ِ محققین کے ہاں فتویٰ دینے کے لیے ان کتب کا یہ مقام نہیں ہے کہ محض اِن کتب میں مذکورہ مسائل پر فتویٰ دے دیا جائے یا اسے بیان کیا جائے، إلا یہ کہ اس کی تائید دیگر کتبِ معتبرہ سے ہو جائے، البتہ ان کتب کے وہ مسائل جو دیگر معتبر کتب کے موافق ہیں ، ان کے لینے میں کسی کو کوئی اشکال نہیں ۔علاوہ ازیں ! مؤلف فاضل نے اس کتابچے کے بابِ دوم میں حضرات اکابر علمائے دیوبند کے فتاویٰ کو بھی شامل کیا ہے، جو اپنی جگہ خود بہت سی قیمتی اور اہم ابحاث اور نکات پر مشتمل ہیں ۔
برادرم حضرت مفتی محمد ر اشد ڈسکوی صاحب حفظہ اللہ زمانۂ طالب علمی سے ہی تحقیقی ذوق کے حامل اور سیال قلم کے مالک ہیں اور ان کے قلم سے کئی علمی، فقہی، معاشرتی، اصلاحی مضامین (جو ملک کے موقر ماہناموں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ) اور وقیع کتب منصۂ شہود پر آ چکی ہیں ، کسی مسئلے کے بارے میں جب تحقیق کرتے ہیں تو اپنی مقدور بھر تحقیق کا حق اس طرح ادا کرتے ہیں کہ وہ مسئلہ کسی جہت سے تشنہ نہیں رہتا، جس کی جھلک موجودہ کتابچے میں بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے، یقیناً اس مسئلہ کے بارے میں بھی ان کی تحقیق قابل قدر اور عوام وخواص سب کے لیے گراں قدر علمی تحفہ ہے، اہلِ علم کو چاہیے کہ اس سے بھر پور استفادہ کریں ۔
اللہ تعالیٰ ان کی مساعیٔ جمیلہ کو شرفِ قبولیت کا درجہ عطافرمائیں ، اور ان کی محنتوں کو بارآور فرمائیں ، ان کے لیے بھی اور ہم جیسے تہی ستگان علم وعمل کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائیں ۔ آمین
(حضرت مولانا مفتی)عبد الباری (دامت برکاتہم العالیہ)
۱۳ ؍ ربیع الاول؍ ۱۴۳۵ھ بمطابق ۱۵ جنوری ۲۰۱۴م