فقد زعم أن محمداً ﷺ خان الرسالۃ؛ لأن اللہ یقول: {الیوم أکملت لکم دینکم…إلخ }۔فإلم یکن یومئذ دینا، فلا یکون الیوم دینا‘‘۔ ( تہذیب الفروق والقواعد السنیۃ في الأسرار الفقہیۃ، الفرق الثاني والخمسون والمئتان بین قاعدۃ ما یحرم من البدع وینھی عنہ وبین قاعدۃ ما لا ینھی عنہ : ۴؍۳۹۰)
ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی بدعت نکالی، جس کو وہ اچھا سمجھتا ہو، تو اس نے یہ گمان کیا کہ حضرت محمد ﷺ نے ادائیگیٔ رسالت میں خیانت کی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے‘‘، پس جو چیز اس وقت دین نہیں بنی سکی تھی، وہ آج بھی ہر گز دین نہیں ہو سکتی‘‘۔
اس کے ساتھ ساتھ احادیث ِ مبارکہ میں بدعت اور اس کے مرتکبین کی سخت ترین الفاظ میں مذمت بیان کی گئی ہے، چناں چہ ! جناب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’من أحدث في أمرنا ھٰذا ما لیس منہ، فھو رد‘‘۔(صحیح البخاري، باب إذا اصطلحوا علی جور فھو مردود: ۱؍۳۷۱، رقم الحدیث: ۲۶۹۷)
ترجمہ: جس نے دین کے معاملہ میں کسی نئی بات کا