الخرافات۔ (ان نشانات پر ہم کسی قدر روشنی ڈالیں گے) لیکن ان نشانات کا نمبر بھی ۲۰۵ تک پہنچ کر ختم ہوگیا۔ چنانچہ آخری یہی نمبر تتمہ حقیقت الوحی میں درج ہوکر خاتمہ ہوگیا۔
مناسب تو یہ تھا کہ مرزا قادیانی کی اس صریح دھوکہ بازی اور ابلہ فریبی کو دیکھ کر مسلمان ہوشیار ہوجاتے اور سمجھ لیتے کہ یہ سب دکانداری ہے اور روپیہ ٹکہ بٹورنے کا سامان ہے اور بس۔ لیکن دنیا میں بہت سے عقل کے اندھے ایسے بھی موجود ہیں کہ اپنی خوش اعتقادی سے ایسے ٹھگ بازوں کی دکان کی گرم بازاری کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ کئی ایک اشخاص آپ کے حلقہ مریدی میں داخل ہوگئے۔ مرزا قادیانی کا اس سے حوصلہ بلند ہوگیا۔ وہ طرح طرح کے دعاوی کرنے لگے۔ پہلے صرف ملہمیت اور مجددّیت کا دعویٰ کیا۔ پھرظلی وبروزی نبی کے بھیس میں جلوہ گر ہوئے۔ بالآخر کامل ومکمل نبی ورسول ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ بلکہ الوہیت کا جامہ پہن کر نیا آسمان اور نئی زمین کی خالقیت کا بھی دم بھرنے لگے اور ابن اﷲ بلکہ معاذ اﷲ ابو اﷲ ہونے کے بھی الہام تراشے گئے۔ (ان کی تفصیل آگے آئے گی)
مرزا قادیانی کا ادّعائے نبوّت
مرزا قادیانی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لئے ان کا ادعائے نبوت ہی کافی دلیل ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بڑے بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ کسی نے نبوت کا دعویٰ کرنے کی جرأت نہ کی۔ آپﷺ کے بعد بڑے بڑے پائے کے اولیائے کرام حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جیسے سرخیل اولیاء کرام ہو گزرے ہیں لیکن ختم نبوت کی مہر توڑنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ لیکن چودھویں صدی کا مغل زادہ جس کے حسب نسب کا پتہ ان کا ایک محرم راز ہم وطن حسب ذیل رباعی میں دیتا ہے۔ رباعی:
یک قاطع نسل و یک مسیحائے زماں
یک مہنز لال بیگیان دوراں
افتد چو گزر بقادیانت گاہے
ایں خانہ تمام آفتاب است بداں
پہلے مبلغ اسلام کی حیثیت میں اٹھتا ہے۔ پھر ملہم ومجدد ومحدث کا خطاب حاصل کرکے جھٹ مہدی، پھر میثل مسیح پھر یک لخت اصل مسیح بن جاتا ہے۔ پھر اس سے ترقی کرکے نبی ظلی بروزی کا جامہ پہنتا پھر کامل ومکمل نبی رسول بن کر دنیا کو للکارتا ہے کہ میری رسالت کا کلمہ پڑھو۔ ورنہ تم سب کافر ہو۔ کیا ادعائے نبوت کوئی معمولی دعویٰ ہے۔ اگر سلطنت اسلام ہوتی تو پہلے ہی روز اس مدعی رسالت کا قصہ تمام کردیا جاتا۔ کیا مسیلمہ کذاب، اسود عنسی کلمہ توحید کے قائل نہ تھے۔ کیا سجاح نے کوئی اور جرم کیا تھا کہ سب کام چھوڑ کر حضرت صدیق اکبرؓ نے ان سے جہاد کی ٹھانی