ہو یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی سے اس زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوںگے اور اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کر دیا کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۷حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
۲… ’’اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح نے اپنے دادا سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ عقلی معجزہ دکھایا ہو اور ایسا معجزہ دکھانا عقل سے بعید نہیں۔ کیونکہ حال کے اکثر صناّع اکثر چڑیاں بنالیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دم بھی ہلاتی ہیں اور میں نے سنا ہے کہ بعض چڑیاں کل کے ذریعہ پرواز بھی کرتی ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۴، خزائن ج۳ ص۲۵۵)
اب آپ معجزات انبیاء کو علم الترب یعنی مسمریزم کے نام سے موسوم کریںگے۔ سنئے:
۳… یاد رکھنا چاہئے کہ جو قرآن مجید میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزائے متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑوں پر چھوڑا گیا اور پھر وہ بلانے سے آگئے۔ یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۵۲، خزائن ج۳ ص۵۰۶)
۴… ’’قرآن شریف کی کسی عبارت سے نہیں نکلتا کہ فی الحقیقت کوئی مردہ زندہ ہوگیا تھا اور واقعی طور پر کسی قالب میں جان پڑ گئی تھی۔ بلکہ یہودیوں کی جماعت نے خون کر کے چھپا دیا تھا۔ ان کو یہ تدبیر سمجھائی گئی کہ ایک گائے ذبح کر کے اس کی بوٹیاں لاش پر ماریں۔ تب اصلی خونی کے ہاتھ سے جب لاش پر بوٹی لگے گی تو اس لاش سے ایسی حرکتیں سرزد ہوںگی جس سے خونی پکڑا جائے…… اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ طریق عمل تراب یعنی مسمریزم کا ایک شعبہ ہے۔ جس کے بعض خواص سے یہ بھی ہے کہ جمادات یا مردہ حیوانات سے ایک حرکت مشابہ بہ حرکت حیوانات پیدا ہوکر اس سے بعض مشتبہ اور مجہول امور کا پتہ لگ سکتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۴۹،۷۵۰، خزائن ج۳ ص۵۰۴)
۵… ’’یہ اعتقاد بالکل غلط مشرکانہ اور فاسد خیال ہے۔ مسیح مٹی کے پرند بنا کر ان میں پھونک مار کر ان کو سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا۔ بلکہ صرف عمل الترب تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۲۲، خزائن ج۳ ص۲۶۳)