’’ان کنتم فی ریب مما ایدنا عبدنا فاتوا بکتاب من مثلہم‘‘ اگر تم شک میں ہو۔ اس سے کہ تائید کی ہے ہم نے اپنے بندے کی۔ پس اس کی مانند کوئی کتاب لے آؤ۔ (تذکرہ ص۲۵۱)
’’یہ میری کتاب ہے۔ اس کو کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ مگر وہی جو خاص خدمت گار ہیں۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۱۲)
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دانمش زخطا
ہمچو قرآں منزہ اش دانم
از خطاہا ہمیں است ایمانم
(نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
’’یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک یوم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔ وہ کلام جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔ یقینی اور قطعی ہے اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور اس کی روشنی ہے۔ ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا۔ جو خدا کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
الہامات انگریزی
قرآن مجید نے ایک اصول بیان کیا ہے۔ ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراہیم:۴)‘‘ یعنی جو نبی آیا وہ اپنی ہی بولی بولتا ہوا آیا۔ ابتدائے آفرنیش سے یہی دستور چلا آیا ہے کہ خدا کے نبی اپنی ہی مادری زبان میں خدا کا کلام لوگوں کو سناتے رہے اور کبھی کسی غیر قوم کی زبان میں ان پر خدا کا الہام نہیں ہوا۔ دنیا میں جس قدر مذاہب خدا سے الہام پانے کے قائل ہیں اور ان کے نبیوں کو خدا نے شرف مکالمہ بخشا ہے۔ ان میں کوئی ایک نظیر بھی تلاش کرنے سے ایسی نہیں ملے گی کہ ملہم پر اس زبان میں خدا کی وحی نازل ہوئی جو اس کی اپنی نہ ہو۔ مگر مرزاقادیانی کچھ ایسے مظہر العجائب تھے کہ ان پر عربی زبان میں الہام ہوئے، فارسی میں ہوئے، اردو میں ہوئے۔ حتیٰ کہ انگریزی میں ہوئے اور نہ ہوئے تو صرف اپنی مادری زبان پنجابی میں اور