طرح حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سند نبوت بھی بدستور برقرار رہے گی۔ مگر اس سے محمد رسول اﷲﷺ کے منصب ختم نبوت میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آئے گا۔
اسی مقام سے ہمیں اصل اشکال کے ایک دوسرے جواب کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری بحیثیت نبی کے نہ ہوگی۔ بلکہ خاتم النبیینﷺ کے ایک امتی کی حیثیت سے ہوگی۔ وہ نہ تو کوئی نئی کتاب لائیںگے نہ کوئی دوسری شریعت بلکہ قرآن مجید اور شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الف الف تحیہ ہی پر عمل فرمائیںگے۔ یہاں تک کہ انجیل جو خود ان پر نازل ہوئی تھی۔ اسے بھی لے کر نہیں تشریف لائیں گے نہ اس پر عمل پیرا ہوں گے بلکہ اس کے بجائے قرآن مجید ہی پر عمل کریں گے۔ ایسی حالت میں اس کا وہم کرنا بھی نادانی ہے کہ ان کا تشریف لانا ختم نبوت محمدیہﷺ کے منافی ہے۔ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تشریف آوری ہر گز ختم نبوت کے منافی نہیں۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا خاص مقصد مسیح دجال کو قتل کرنا اور اس کے شر سے امت محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی سلطان کسی خاص مجرم کو سزا دینے کے لئے کسی شخص کو مامور کرے۔ اس مدت کے لئے اس شخص کے کسی حصہ ملک میں جانے سے اس حصہ کے حاکم کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ یہ جب تک اس حصہ میں ہے اس وقت تک اسی حاکم کے ماتحت سمجھا جائے گا اور اسے حاکم کسی حالت میں بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام فتنۂ دجال کے استیصال کے لئے تشریف لائیںگے۔ اس حالت میں ان کی حیثیت امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک فرد کی ہوگی۔ اس سے آنحضورﷺ کے منصب خاتم النبیینﷺ پر ذرہ برابر بھی کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔
نزول مسیح دلیل ختم نبوت
جس شخص کو اﷲتعالیٰ نے بصیرت کی نعمت سے نوازا ہے اور جو تفکر کی راہ ایمان کی روشنی میں طے کرتا ہے وہ اگر فہم وتأمل سے کام لے تو اسے نظر آئے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری ختم نبوت محمدیہ (ﷺ) کے منافی ہونے کے بجائے اس کی مزید تائید کر رہی ہے اور عقیدہ ختم نبوت کی ایک مستقل دلیل وبرہان ہے۔