درحقیقت ایک چیستان سے کم نہیں۔ جسے ہم نے بھلا کیا سمجھیں گے۔ مرزاقادیانی کے مقلدین میں بھی اسی بناء پر پھوٹ پڑ گئی اور مرزائی دو جماعتوں میں تقسیم ہو گئے۔
قادیانی جماعت مرزاقادیانی کو ان کے دعاوی کے لحاظ سے نبی مانتی ہے اور لاہوری پارٹی منکر نبوت ہے اور انہیں صرف مجدد تسلیم کرتی ہے۔ ایک فرقہ نے نہایت فیاضی کے ساتھ باب نبوت کھول دیا اور دوسرا فرقہ ختم نبوت کا قائل ہے۔ دونوں مرزاقادیانی کی تحریرات کی بناء پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ دونوں راستی پر ہیں۔ فی الواقع مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا بھی اور نہیں بھی کیا۔ وہ نبی بنے اور نبی بھی ایسے کہ کیا جرأت جو کوئی صاحب شریعت اور مستقل نبی ان کے مقابل آسکے اور پھر دفعتہ ایسے چپ ہوگئے کہ گویا وہ تعلّیاں کرنے والی زبان ہی کسی نے گدی سے نکال دی اور اب وہ منہ میں نہیں رہی۔ ان کی یہی کیفیت رہی کہ ؎
گہے برطارم اعلیٰ نشینم
گہے برپشت پائے خود نہ بینم
مگر وہ زمانہ شناس تھے۔ وقت کی نزاکت کو سمجھتے تھے۔ ضرورت زمانہ کو جانتے تھے۔ جہاندیدہ تھے اور ہوشیار وچالاک تھے۔ اس لئے پہیلیوں سے کام چلاتے رہے اور حق تو یہ ہے کہ خوب ہی کام چلایا۔ کسی شاعر نے شاید انہی کی حالت کو ملحوظ رکھ کر یہ شعر کہا تھا کہ ؎
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پروہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
اعتذار
کفریات مرزا کی پیش نظر اشاعت سے قبل مجھے جن مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ان کی تفصیل داستان دراز کی حیثیت رکھتی ہے۔ مختصراً صرف اس قدر عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ اواخر مئی میں کتابت ختم ہوچکی تھی اور صرف طباعت باقی تھی کہ درمیان کے چالیس صفحات کے علاوہ اوّل وآخر کی تمام کاپیاں گم ہوگئیں اور ان گمشدہ اوراق کو دوبارہ لکھانا پڑا۔ ایسی حالت میں اگر کتابت، طباعت اور ترتیب صفحات میں کچھ نقائص رہ گئے ہوں تو میں ان کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ طبع ثانی میں انشاء اﷲ العزیز ان نقائص کا ازالہ کر دیا جائے گا۔ اسرار احمد آزاد!
مورخہ ۱۶؍جون ۱۹۳۳ء
اب ان کا کلام معجز نظام سنئے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ان کے دعویٰ ملاحظہ فرمائیے اور لطف اٹھائیے۔