محل اور ناروا اقتدار وتسلط سے پیدا ہوئے ہیں یا خود اس ناروا اقتدار کا سبب بن جاتے ہیں۔
خاتم المرسلین محمد رسول اﷲﷺ کی بعثت ایک مخصوص دور میں ہوئی جو عالم کی پوری تاریخ میں ممتاز اور نمایاں ہے۔ اس دور میں ایک طرف تینوں قسم کی گمراہیاں بسیط صورت میں موجود تھیں اور پورے شباب پر تھیں۔ دوسری طرف ان کی ترکیب سے پیدا ہونے والی گمراہیاں بھی اپنے نقطۂ عروج (Climax) تک پہنچ چکی تھیں۔ عقل میدان میں فاتحانہ داخل ہوئی۔ مگر اس طرح کہ اپنی کابینہ میں جذبات واحساسات کو بہت نمایاں اور اہم حصہ دیا اور ان پر حکومت کرنے کے بجائے ان کی وکالت کرنے لگی۔
سید المرسلینﷺ نے ان تینوں قوتوں کے درجات وحدود متعین کئے۔ ان کے حسن وقبح سے آگاہ کیا۔ ان کی گمراہیوں اور ان کے ہولناک نتائج سے مطلع کیا۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ترکیب کی غلطیوں پر بھی مطلع فرمایا۔ نفس انسانی میں ان کی ترکیب میں ان کے صحیح تناسب کی تعلیم دی جو مزاج صالح کو وجود میں لائے اور ان غیرمناسب ترکیبوں پر متنبہ کیا جو فاسد مزاج پیدا کرتی ہیں۔ اس کے بعد زیغ وضلال کفر والحاد، بداخلاقی وبے راہ روی کی کوئی نوع اور ہدایت ورشد کی کوئی ایسی قسم نہیں باقی رہتی۔ جس کے واضح کرنے کے لئے کسی دوسرے نبی کی بعثت ضروری ہو۔ کیونکہ ان تین کے علاوہ کوئی چوتھی قوت انسان کو نہیں ملی ہے جو اس کے کاروان حیات کی رہنمائی کی دعویدار ہو۔ ظاہر بات ہے کہ ان اصول ضلال کے بعد کون سی گمراہی ایسی باقی رہتی ہے جو ان کے ماتحت داخل نہ ہو اور جس سے نجات دلانے کے لئے کسی نبی کے مبعوث ہونے کی حاجت ہو۔ اسی طرح ان کے مقابلہ میں ہدایت ورشد کے اصول بتانے کے بعد ان کی کون سی قسم ایسی رہ جاتی ہے جس کی تعلیم کے لئے کسی نبی کی بعثت ناگزیر ہو؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کسی نبی ورسول کی بعثت کی حاجت نہیں ہے۔ بلکہ قیامت تک ہر گمراہی سے نجات حاصل کرنے کے لئے تعلیمات محمدیہ علیہ الف الف تحیہ کافی ہیں۔ افراد امت ان اصول وتعلیمات کو پھیلا کر اور ان کا نفاذ کر کے قیامت تک ہر گمراہی وضلال کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ہر شخص ان اصول کی روشنی میں ہر زمانہ میں حق تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے راستہ پر چل سکتا ہے۔ اس اصول کو پھر یاد کرلیجئے کہ بلاضرورت سلسلۂ نبوت کے جاری رہنے کا قائل ہونا فطرت انسانی کے بالکل خلاف اور سفیہانہ فعل ہے۔ بطور نتیجہ صریح ہم یہ عقیدہ رکھنے پر مجبور ہیں کہ محمدﷺ خاتم النبیین ہیں اور آنحضورﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت تاقیامت تک نہیں ہوسکتی۔