میں بدزبانی کر سکتے ہیں۔ جنہیں خود خدا کا برگزیدہ اور رسول مانتے ہیں ۔یہ تو دراصل الزامی جواب نہیں۔ بلکہ اپنے آپ کو ملزم گرداننا ہے۔ کیونکہ جب خود ان کے قول کے مطابق آنجناب کا وجود عیسائیوں اور مسلمانوں میں ایک مشترک جائیداد کی طرح ہے۔ تو کس طرح ممکن ہے کہ آپ اپنے اولوالعزم رسول کو گالیاں بھی دیں اور مسلمان بھی کہلائیں۔ مرزاقادیانی کے الزامی جواب بھی خوب ہیں۔ جن کی بدولت غیر کا تو کچھ بگڑتا نہیں۔ مگر اپنے ایمان سے انہیں ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ کیا کوئی عیسائی کسی یہودی کے الزامات کے جواب میں جو وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت نہایت بے باکی وبے حیائی اور دریدہ دہنی سے شب وروز لگاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دے کر اپنی ایمانی غیرت کا ثبوت دے سکتا ہے؟ وہ تو اپنی چھری سے اپنی ناک کاٹتا ہے۔ مگر مرزاقادیانی اپنے حسد، بغض اور عداوت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے اور مسیح کے ساتھ بوجہ رقابت کے انہیں اس قدر عناد تھا کہ انہیں وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے اور انہوں نے اپنے دل کا بخار نکالنے کے لئے اس کی پرواہ نہ کی کہ ایمان ہاتھ سے جاتا ہے ؎
اگر حقیقت اسلام درجہاں این است
ہزار خندۂ کفر است بر مسلمانی
لیکن لطف یہ ہے کہ اس قدر یا وہ گوئی پر بھی لوگوں کو یہی کہتے اور سمجھاتے رہے کہ: ’’جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راست باز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۰۱، خزائن ج۱۳ ص۱۱۹)
یہ ایسی جرأت وجسارت، بے باکی اور دیدہ دلیری کا کام ہے جو صرف مرزاقادیانی جیسے ابلہ فریب ہی کر سکتے ہیں۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
اہانت موسیٰ علیہ السلام
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کئی لاکھ بے گناہ بچے مار ڈالے۔‘‘
(نورالقرآن ص۲۴حاشیہ، خزائن ج۹ ص۳۵۳)
اہانت حسینؓ
’’تم نے اس کشتہ سے نجات چاہی کہ جو نومیدی کے ساتھ مرگیا۔ پس تم کو خدا نے جو