اصولوں کے مطابق تشریح کی گئی تھی) اس سے پنڈت جی اور قادیانی دونوں پریشان ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بناء پر دونوں اپنے دل میں مسلمانان ہند کے مذہبی اور سیاسی استحکام کو پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ ہندوستانی قوم پرست جن کی سیاسی تصوریت نے احساس حقائق کو کچل دیا ہے۔ اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ شمالی مغربی ہند کے مسلمانوں میں احساس خود مختاری پیدا ہو۔ میری رائے میں ان کا یہ خیال غلط ہے کہ ہندوستانی قومیت کے لئے ملک کی مختلف تہذیبوں کو مٹا دینا چاہئے۔ حالانکہ ان تہذیبوں کے باہمی عمل واثر سے ہندوستان ایک ترقی پذیر اور پائیدار تہذیب کو نمودے سکتا ہے۔ ان طریقوں سے جو تہذیب نمو پائے گی اس کا نتیجہ بجز باہمی تشدد اور تلخی کے اور کیا ہوگا۔ یہ بات بھی بدیہی ہے کہ قادیانی بھی مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلمانان ہند کے سیاسی نفوذ کی ترقی سے ان کا یہ مقصد یقینا فوت ہوجائے گا کہ پیغمبر عرب کی امت سے ہندوستانی پیغمبر کی ایک نئی امت تیار کریں۔ حیرت کی بات ہے کہ میری یہ کوشش کہ مسلمانان ہند کو اس امر سے متنبہ کروں کہ ہندوستان کی تاریخ میں جس دور سے وہ گذر رہے ہیں۔ اس میں ان کا اندرونی استحکام کس قدر ضروری ہے اور ان انتشار انگیز قوتوں سے محترز رہنا کس قدر ناگریز ہے۔ جو اسلامی تحریکات کے بھیس میں پیش ہوتی ہیں۔ پنڈت جی کو یہ موقع دیتی ہے کہ ایسی تحریکوں (احمدیت) سے ہمدردی کریں۔
بہرکیف میں پنڈت جی کی محرکات کی تحلیل کے ناگوار قرض کو جاری رکھنا نہیں چاہتا۔ جو لوگ قادیانیت کے متعلق عام مسلمانوں کے طرز عمل کو توضیح چاہتے ہیں۔ ان کے استفادہ کے لئے میں ڈیورنٹ کی کتاب افسانہ فلسفہ کا اقتباس پیش کرتا ہوں۔ جس سے قارئین کو واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ قادیانیت میں امر تنقیح طلب کیا ہے۔ ڈیورٹ نے فلسفی اعظم اسپنوزا کے جماعت بدر کئے جانے سے متعلق یہودی نقطۂ نظر کو اختصار کے ساتھ چند جملوں میں بیان کیا ہے۔
قارئین کا خیال نہ کریں کہ اس اقتباس کے پیش کرنے سے میرا مطلب اسپنوزا اور بانی احمدیت میں کسی قسم کا موازنہ کرنا عقل وسیرت کے لحاظ سے ان دونوں کے مابین بعد عظیم ہے۔ ’’خدامست‘‘ اسپنوزا نے یہ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ کسی جدید تنظیم کا مرکز ہے اور جو یہودی اس پر ایمان نہ لائے یہودیت سے خارج ہے۔ اسپنوزا کے جماعت بدر کئے جانے کے متعلق ڈیورنٹ کی عبارت یہودیوں کے طرز عمل پر اس قدر منطبق نہیں ہوتی۔ جس قدر کہ قادیانیت کے متعلق