بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
علامہ اقبال کا پیغام … ملت اسلامیہ کے نام
ماڈرن ریویو کلکتہ میں پنڈت جواہرلال نہرو کے تین مضامین شائع ہونے کے بعد سے مجھے اکثر مسلمانوں نے جو مختلف مذہبی وسیاسی مسلک رکھتے ہیں۔ متعدد خطوط لکھے ہیں۔ ان میں سے بعض کی خواہش ہے کہ میں احمدیوں کے بارے میں مسلمانان ہند کے طرز عمل کی مزید توضیح کروں اور اس طرز عمل کو حق بجانب ثابت کروں۔ بعض یہ دریافت کرتے ہیں کہ میں احمدیت میں کسی مسئلہ کو تنقیح طلب سمجھتا ہوں۔ اس بیان میں ان مطالبات کو پورا کرنا چاہتا ہوں۔ جن کو میں بالکل جائز تصور کرتا ہوں اور اس کے بعد ان سوالات کا جواب دینا چاہتا ہوں جو پنڈت جواہر لال نہرو نے اٹھائے ہیں۔ بہرحال مجھے اندیشہ ہے کہ اس بیان کا ایک حصہ پنڈت جی کے لئے دلچسپ نہ ہوگا۔ لہٰذا ان کا وقت بچانے کے لئے میرا یہ مشورہ ہے کہ وہ ایسے حصوں کو نظر انداز کر دیں۔
میرے لئے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ پنڈت جی کو مشرق کے بعد ساری دنیا کے ایک عظیم الشان مسئلہ سے جو دلچسپی ہے میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میری رائے میں یہ پہلے ہندوستانی قوم پرست قائد ہیں جنہوں نے دنیائے اسلام کی موجودہ روحانی بے چینی کو سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس بے چینی کے مختلف پہلوؤں اور ممکنہ ردعمل کے مدنظر ہندوستان کے ذی فکر سیاسی قائدین کو چاہئے کہ اس وقت قلب اسلام میں جو چیز ہیجان برپا کر رہی ہے۔ اس کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
بہرحال میں اس واقعہ کو پنڈت جی اور قارئین سے پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتا کہ پنڈت جی کے مضامین نے میرے ذہن میں احساسات کا ایک دردناک ہیجان پیدا کر دیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ پنڈت جی ایک ایسے انسان ہیں جو مختلف تہذیبوں سے وسیع ہمدردی رکھتے ہیں۔ میرا ذہن اس خیال کی طرف مائل ہے کہ جن سوالات کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ بالکل خلوص پر مبنی ہے۔ تاہم جس طریقہ سے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے ایسی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے جس کو پنڈت جی سے منسوب کرنا میرے لئے دشوار ہے۔ میں اس خیال کی طرف مائل ہوں کہ میں نے قادیانیت کے متعلق جو بیان دیا تھا (جس میں ایک مذہبی نظریہ کی محض جدید