مسلمان ارباب اقتدار نے اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اﷲﷺ کے بعد اجراء نبوت رسالت کا ناپاک دعویٰ کرنے والی جماعت احمدیہ، مرزائیہ، قادیانیہ کو برطانوی سامراج کی جاسوس ہونے کے جرم میں خلاف قانون قرار دے رکھا ہے اور یہ ملک ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی مرزائی تبلیغ کے بہانے جا سکتے ہیں اور نہ اپنے دفاتر قائم کر سکتے ہیں۔
’’یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا کہ مرزائی جماعت کو جب مصر میں خلاف قانون قرار دیا گیا اور ان کے دفاتر سربمہر کر دئیے گئے تو انہوں نے مصر سے نکل کر اسرائیل میں پناہ لی اور اب بھی اس جماعت کا اسرائیل میں باقاعدہ دفتر موجود ہے اور مرزائی مبلغ سامراج جاسوسوں اور استعماری ایجنٹوں کی حیثیت سے اسلامیاں عرب کے خلاف پراسرار سازشوں میںمصروف کار ہیں۔‘‘ (بحوالہ اسرائیل اور جماعت اسلامی ص۹۳)
لیکن بصد افسوس یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ ان ممالک کے برعکس ہماری مملکت خداداد پاکستان میں جو کہ ایک اسلامی مملکت ہے اور جسے اسلام کے نام پر ہی حاصل کیاگیا ہے۔ یہاںجس کا دماغ خراب ہو جاتا ہے وہ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے اور اس کا کوئی سد باب نہیں کیا جاتا۔
مارشل لاء کے بعد گوجرانوالہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ ایک صاحب ماسٹر عبدالحمید نے سیالکوٹ میں نبوت کا رنگ چڑھایا اور ایک پاکستانی قادیانی نے تو انگلستان میں جاکر اپنی نبوت کا جھنڈا گاڑ دیا اور ڈنکے کی چوٹ اعلان کر دیا کہ جو لوگ مجھ پر ایمان نہ لائیں گے وہ تباہ وبرباد ہو جائیںگے۔ وہ اپنے ہی فرقے کے لوگوں یعنی قادیانیوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب بھی ہوگیا۔ یہ شخص قادیانی فرقہ کے تبلیغی مشن میںملازم تھا۔ ملازمت اور تبلیغ کرتے کرتے مرزاغلام احمد قادیانی کا ظل اور بروز بن گیا۔
اسی طرح ماہ اگست ۱۹۶۷ء میں فقیر والی ضلع بہاولنگر کے ایک پاگل نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا اور اس نے اپنا منشور یعنی آمد کا مقصد بھی شائع کر دیا تھا۔ فقیر والی کے دیندار مسلمانوں نے سمجھا بجھا کر اس کی اصلاح کی اور وہ دوبارہ مسلمان ہو گیا۔
نوٹ: امید ہے کہ میرے جملہ بیان سے آپ کی تشفی ہوگئی ہوگی۔ براہ کرم بیس یوم تک آپ اپنی رائے عالی سے مطلع فرماویں۔ تاکہ بنداس جواب کو کتابی شکل دے دے۔ فقط:
والسلام!