بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
۱…قرآن کریم میں حیات عیسیٰ علیہ السلام
’’وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الاتباع الظن وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (النسائ)‘‘ {اور ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح علیہ السلام بیٹا مریم رسول اﷲ کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ نہ انہوں نے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا۔ لیکن وہ شبہ میں مبتلا کئے گئے جو لوگ اس میں اختلاف کرتے ہیں۔ یقینا وہ بدظن کی اتباع کر رہے ہیں۔ ان کو کچھ بھی علم نہیں ہے۔ ہرگز انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا (آسمان کی طرف) اور اﷲ غالب حکمت والا ہے۔}
۲…حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں
’’وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا‘‘ {اور وہ (عیسیٰ علیہ السلام) نشانی ہیں قیامت کی تم اس میں ہر گز شک نہ کرو۔}
۳…ہر ایک اہل کتاب ان کی موت سے قبل ان پر ایمان لے آئے گا
’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (النسائ)‘‘ {اور کوئی بھی اہل کتاب نہیں جو ان (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔}
قادیانی نبی، حیات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل تھا
۱… ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہر علی الدین کلہ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے۔ جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح