ارادۃ ولا خطرۃ وبین ما انا فی ہذہ الحالتہ کنت اقول انا نرید نظاماً جدیداً سماء جدیدۃ وارضاً جدیدۃ… فخلقت السمٰوت والارض اولا بصورتۃ اجمالیۃ لا تفریق فیہا ولا ترتیب ثم فرقتہا ورتبتہا وکنت اجد نفسی علے خلقہا کالقادرین ثم خلقت السماء الدنیا وقلت انا زینا السماء الدنیا بمصابیح ثم قلت الاٰن نخلق الانسان من سلالۃ من طین۰ فخلقت آدم انا خلقنا الانسان فی احسن تقویم وکنا کذالک الخالقین‘‘ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود اﷲ ہوں اور میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں اور نہ میرا کوئی ارادہ باقی رہا نہ خطرہ اسی حال میں (جبکہ میں بیعنہ خدا تھا) میں نے کہا کہ ہم ایک نیا نظام نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ پس میں نے پہلے آسمان اور زمین اجمالی شکل میں بنائے۔ جن میں کوئی تفریق اور ترتیب نہ تھی۔ پھر میں نے ان میں جدائی کر دی اور ترتیب دی اور میں نے اپنے آپ کو اس وقت ایسا پایا تھا کہ میں ایسا کرنے پر قادر ہوں۔ پھر میں نے آسمان دنیا کو پیدا کیا اور کہا: ’’انا زینا السماء الدنیا بمصابیح‘‘ پھر میں نے کہا ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریںگے۔ پس میں نے آدم کو بنایا اور ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا اور اسی طرح سے ہم خالق ہوگئے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴،۵۶۵، خزائن ج۵ ص۵۶۴،۵۶۵)
ب… ’’واعطیت صفۃ الافناء والاحیائ‘‘ مجھ کو فنا کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی ہے۔ (خطبہ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۵)
ج… ’’انما امرک اذا اردت شیئاً ان تقول لہ فکن فیکون‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۹۴)
نتائج
’’ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم‘‘
او قادنیو! او مرزائیو! بتاؤ اور سچ بتاؤ کہ مرزاقادیانی نے خدا ہونے میں کون سی کسر باقی چھوڑی ہے؟ کیونکہ اسی الہام کی تصدیق وتائید کرتے ہوئے یقین کر لیا کہ میں واقعی خدا ہوں۔ فرعون نے بھی تو یہی کہا تھا کہ: ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ پھر بتلاؤ کہ مرزاقادیانی کے ان الفاظ میں اور فرعون کے مقولہ میں کیا فرق باقی رہا؟
عبارت ’’واعطیت وانما امرک‘‘ سے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کو ’’کن فیکون‘‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔ زندہ کرنے اور فنا کرنے کی بھی صفت مرزاقادیانی میں