حرمت جہاد پر ایک نظم
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے
دین کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے
اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۷۷،۷۸)
دینی جہاد اور مسیح موعود
تم میں سے جس کو دین ودیانت سے ہے پیار
اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کو کر کے استوار
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد و حرام اور قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۹، خزائن ج۱۷ ص۸۰)
جہاد قطعاً حرام ہے
یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ اس فرقہ میں تلوار کا جہاد بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے۔ بلکہ یہ مبارک فرقہ نہ ظاہر طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر جہاد کی تعلیم کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا اور قطعاً اس بات کو حرام جانتا۱؎ ہے۔ (تریاق القلوب ص۳۸۹، خزائن ج۱۵ ص۵۱۷)
۱؎ اسی عقیدہ پر مرزاقادیانی کا انتقال ہوا ہے۔ کیونکہ اس فتوے کے بعد اس نے رجوع نہیں کیا۔ اسی سابقہ فتوے پر اس کی امت قائم ہے۔