کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشی تھی۔ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیرلوگ ادھر ادھر ہوتے ہیں۔ آپ حضرت سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جائے۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا۔آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں۔ بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھادیں۔ حضرت نے فرمایا جاو جی! میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۶۳، روایت نمبر۷۷)
ناظرین کرام! اس بات کو خاص طور پر نوٹ فرمالیں کہ اسلام میں پردے کا کس قدر اہتمام کیاگیا۔ یہاں تک آنحضرتﷺ کی ازواج مطہراتؓ اور صحابہ کرامؓ کو باہم سخت ترین پردے کی تاکید تھی۔ حضرت عائشہؓ کو حضرت عبد اﷲ بن ام مکتومؓ (جونابینا تھے) سے بھی پردہ کرنے کو کہا گیا۔
لیکن ملت مرزائیہ کا نبی اپنی بیگم صاحبہ کو لے کر گذر گاہ عام پر ہوا خوری کے بہانے سے ان کی نمائش کر رہے ہیں۔
مرض الموت
خاکسار مختصراً عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو بالکل تندرست تھے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔ میں اپنے بستر پر جاکر لیٹ گیا اور پھر مجھے نیند آگئی۔ رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگایا گیا یا شاید لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سے میں خود بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) اسہال (ہیضہ) کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور ادھر ادھر معالج اور دوسرے لوگ کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود کے اوپر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا۔ کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی تھی اور میرے دل پر یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے۔ (سیرۃ المہدی ص۹ حصہ اوّل روایت نمبر۱۲)
مرزا قادیانی کی وفات
برادران! جیسا کہ آپ صاحبان کو معلوم ہے۔ حضرت امامنا ومولانا حضرت مسیح موعود