کا دور بھیانک منظر پیش کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ پونے چودہ سو سال پیشتر ایک عظیم المرتبت، محسن انسانیت، جامع الصفات کامل ترین اور ہمہ گیر شخصیت نے دنیا کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، اجتماعی، مملکتی، عمرانی مسائل میں اہم انقلابی تغیرات پیدا کئے۔
اور وادی بطحا سے جو صدائے عشق بلند ہوئی تھی اس کی بازگشت آج بھی ہر محفل کو گرمانے کے لئے کافی ہے اور اس طبیب کامل(ﷺ) نے بیچارے انسان کو حالت نزع میں ایسی دوائی پلائی تھی کہ جس نے حلق سے اترتے ہی ایسا حیرت انگیز اثر دکھایا کہ بیمار نہ صرف خود تندرست وتوانا ہوگیا بلکہ پوری انسانی دنیا کو سرچشمۂ زندگی سے سیراب کر دیا ؎
جو نہ تھے خود راہ پر دنیا کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا
’’وکنتم علیٰ شفا حفرۃ من النار فانقذکم منہا (آل عمران:۱۰۳)‘‘ {تم لوگ آگ کے گڑھے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ پھر اﷲتعالیٰ نے تم کو اس سے نجات دلائی۔}
مرکزی اجزائے زندگی یعنی مستقل اور قائم بالذات اقدام حیات کے گہرے اور محکم یقین وایمان کی بنیادوں پر ازسرنو حیات اجتماعیہ کی عمارت کھڑی کی اور زندگی کے ہر جزو کو اس کی اصلی جگہ پر رکھ دیا۔ دنیاکی غفلت شعار قوموں میں حقیقت شناسی کے جوہر آب دار جن سے وہ تہی دامن تھیں پیدا کئے۔ اپنی بالغ النظری سے فساد انسانیت کے حقیقی اسباب وعلل ایک ایک کر کے دریافت کئے اور ان کے ازالہ واصلاح کی ایک درخشندہ اور تابناک مثال قائم کی۔ کیونکہ آج کی طرح اس وقت بھی دنیا کی ہر قوم میں الحاد وبے دینی، انتہائی اخلاقی پستی، سیاسی طوائف الملوکی، معاشی ناہمواری، عدالتی ومعاشرتی عدم مساوات جیسے مفاسد قبیحہ موجود تھے اور اتباع ہوائے نفس کی ہلاکت آفرینیوں نے انسانی زندگی کی کشتی کو خون آشام حوادث ومہالک کی طوفانی لہروں کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ سرورکائنات علیہ افضل الصلوات ہی کی ذات ستودہ صفات تھی۔ جس نے بڑے سے بڑے باجبروت حکمرانوں اور شریر الطبع عناصر کے پنجہ ظلم واستبداد سے مظلوم دنیا کو نجات دلا کر انہیں تقویٰ وطہارت، انسانی مساوات ومؤاخات کا درس عمل دیا۔
حیات انسانی کے ہر گوشہ پر نظر رحمت ڈال کر تمام مسائل کو حل فرمایا۔ کیونکہ رحمتہ للعالمین ختمی المرتبتﷺ کو بتلا دیا گیا تھا کہ آپ آخری نبی ہیں اور آپ کی امت آخری امت ہے۔ کیونکہ مذہبی ارتقاء سفر کی منازل طے کرتا ہوا اپنی انتہا کو پہنچ کر کامل ہو چکا تھا۔ ’’الیوم