اکثر لوگ ’’أشھد أن محمدا رسول اللہ‘‘ کو اذان کے دوران سننے پر اپنے انگوٹھے چومتے ہیں اور آنکھوں پر لگاتے ہیں ، یہ کام بعض لوگ سنت سمجھتے ہیں ، اور استدلال میں روایات ذکر کرتے ہیں ، جن کو مظاہرِ حق والے نے روایت کیا ہے، حالاں کہ یہ خلافِ سنت رسم ہے، اس کو چھوڑ دینا چاہیے، اور جس حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس کو علامہ ابن طاہر ؒنے تذکرہ میں کہا ہے کہ وہ صحیح نہیں (الفوائد المجموعۃ في الأحادیث الموضوعۃ، ص:۵، مؤلفہ علامۃ شوکاني) الغرض یہ کام کرنا کیسا ہے، سنت، خلافِ سنت یا بدعت؟ بینوا توجروا
جواب: یہ مخصوص تقبیل اگرچہ علاجاً جائز ہے، لیکن ثواب کی نیت سے کرنا بدعت ہے، اور چونکہ موجودہ دور میں عوام اس کو ثواب کی نیت سے کرتے ہیں ، لہٰذا فتویٰ نہ کرنے کا دیا جائے گا،
لأن حدیث الصدیق لا یصح رفعہ (کما في المصنوع في أحادیث الموضوع، ص:۲۵) (والفوائد المجموعۃ،ص: ۹) وعدم صحۃ الرفع لا یستلزم صحۃ الموقوف بل لا بد من المراجعۃ إلیٰ الأسناد وکذا ما نقل عن الخضر علیہ السلام لیس بحجۃ وفي سندہ مجاھیل من الانقطاع(بوادر، ص: ۴۰۹) وما في کنز العباد وغیرہ، من کتب الفقہ، فبناء علیٰ تلک الروایات دون النقل عن الائمۃ۔ فافھم وتدبر