الإبھامَین علی العینین، فإنّہ علیہ السلام یکون قائداً لہ إلیٰ الجنۃ، کذا في ’’کنز العباد‘‘ اھ قھستاني، ونحوُہ في ’’الفتاویٰ الصوفیۃ‘‘۔(إلیٰ أن قال) وذکر ذٰلک الجرَّاحيُّ وأطال، ثم قال: ’’ولم یصِحَّ في المرفوع من کل ھٰذا شییٌٔ‘‘۔ (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلاۃ، باب الاذان:۲؍۶۲۸، دار الثقافۃ والتراث، دِمَشق)
علامہ شامی رحمہ اللہ نے قہستانی وغیرہ کے حوالہ سے اس تقبیل کا استحباب نقل کرنے کے بعد جراحی سے نقل کیا ہے کہ کسی حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ، لہٰذا اس کی سنیت پر کوئی دلیل نہیں ۔ اور چوں کہ عوام اس کو سنت سے بھی بڑھ کر ضروری سمجھ کر تارک تقبیل کو ملامت کرتے ہیں ، لہٰذا اس کا ترک ضروری ہو گیا۔ عبارت ِ منسلکہ سے متعلق جس کتاب کا حوالہ پیش کیا گیا ہے، وہ غیر معروف ہے۔ اگر صحیح بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ حضور ﷺ کا نام کہیں لکھا ہوا ہو، تو اسے چومنا اور آنکھوں پر لگاناباعثِ برکت وثواب ہے، اور اس سے کسی کو انکار نہیں ، یہ کیسے ثابت ہوا کہ ناخنوں کو چوم کر آنکھوں پر لگایا جائے، خصوصاً اذان کے وقت۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
(احسن الفتاویٰ، باب رد البدعات، اذان میں انگوٹھے چُوم کر آنکھوں پر لگانا،۱؍۳۷۸، ایچ، ایم سعید)
…………………………………………