پانی بہانے کی تاکید کی۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گذرے اور فرمایا کہ: ’’اس قبر والے پر پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط اور پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے‘‘۔
عرب کا وہ جاہلی معاشرہ جو طہارت کے اصول وآداب سے ناواقف تھا، اسلام نے نماز کی شکل میں روز وشب میں متعدد بار اس کو طہارت کے فرض سے واقف کرایا اور پوری عملی زندگی میں اسے طہارت کا پابند، صفائی کا خوگر اور نجاستوں سے محتاط بنادیا۔ بدن، لباس اور مکان سب کو صاف رکھنے کی تلقین کی، طہارت کا حد درجہ اہتمام وفکر کرنے والے افراد کی اللہ نے تعریف کی اور فرمایا:
فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَتَطَہَّرُوْا، وُاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیْنَ۔ (التوبۃ: ۱۰۸)
ترجمہ: اس مسجد (قبا) میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں ۔
پاکیزگی کو اللہ کا محبوب عمل اور اللہ کی محبت کا باعث قرار دے کر اس کو اختیار کرنے اور اُس کا التزام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، دانتوں کی صفائی کا حکم اسلام میں بڑی تاکید سے آیا ہے اور مسواک کرنے کا حکم ہے۔ ایک حدیث میں ہے:
لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلیٰ اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ وُضُوْئٍ۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی، تو ہر وضو کے وقت مسواک کا واجبی حکم دے دیتا۔
مزید فرمایا گیا:
اَلسِّوَاکُ مَطْہَرَۃٌ لِلْفَمِ وَمَرْضَاۃٌ لِلرَّبِّ۔ (نسائی شریف)
ترجمہ: مسواک میں منہ کی صفائی اور اللہ کی خوشنودی ہے۔