ہونے لگیں، اور ذلت یہ کہ مال کو آبرو پر مقدم رکھے اور اس کی تحصیل میں غیرت اور حیا کو طاق میں رکھ دے، اور تنگ چشمی یہ کہ ذرا ذرا چیز میں بخل کرے اور شریعت اور مروت کو چھوڑ دے، تعلقات واجبۃ الحفظ کی کچھ پروا نہ کرے، اور دناء ت وہی جو حاصل ہے ذلت و تنگ چشمی کا، اور فقدان قوتِ انتظامیہ یہ کہ اوقات کا پابند نہ ہو جن ضوابط و آدابِ معاشرت کے ساتھ دوسرے کی مصالح وابستہ ہوں ان میں اختلاف کرے جس سے دوسرے کی مصلحتیں فوت ہوتی ہوں۔ سو اگر یہ مرادہے تو بلاشبہ یہ اخلاقِ رذیلہ ہیں، اور یہ بھی ۔ُمسلم۔ّ ہے کہ بعض محصلینِ علم میں یہ اخلاقِ رذیلہ پائے جاتے ہیں۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ علمِ دین کا خدانخواستہ اثر ہے یا کسی اور چیز کا ہے۔ سو اس کا فیصلہ نہایت آسانی سے ہوسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا یہ اخلاقِ رذیلہ سب اہلِ علم میں ہیں یا بعض میں ہیں بعض میں نہیں۔ شق اول تو بالمشاہدہ غلط ہے، صرف دوسری شق متعین ہے۔ تو اتنا تو ثابت ہوا کہ یہ علمِ دین کا اثر نہیں ہے ورنہ سب میں ہوتا، تو ضرور کسی دوسری چیز کا اثر ہے سو وہ دوسری چیز میری تحقیق میں خاندان اور صحبت کی کمی ہے۔ یعنی بعضے لوگ خاندانی حیثیت سے پست خیال ودنی ہوتے ہیں اور اخلاق میں خاندان کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ لوگ اپنے شوق سے یا اسبابِ اتفاقیہ سے یا بعضے کھانا کپڑا چلنے کی غرض سے علمِ دین میں مشغول ہوجاتے ہیں اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ محض تعلیم تبدیلِ اخلاق کے لیے کافی نہیں تاوقتیکہ یا وہ فطری ہو یا اس کے لیے خاص تدابیر اختیار کی جائیں۔ جن تدبیروں کو حضرات اہلِ طریقت نے مدوّن فرمایا ہے، اور جن کانفاذ حضرات مشایخ کی صحبت میں ہوتا ہے (اور یہی راز ہے بیعت و خدمت مشایخ کا) تو یہ شخص فطری طور پر خاندانی اثر سے خسیس ودنی ہے۔ اور صحبت کا اتفاق ابھی ہوا نہیں اور نری تعلیم اس کے لیے کافی نہیں تو اب لامحالہ اس شخص میں یہ رذائل موجود ہوں گے اور وقتاً فوقتاً اس کے افعال میں ان اخلاقِ رذیلہ کے آثار ظاہر ہوں گے۔ اب دیکھنے والے اُن کو دیکھ کر تمام اہلِ علم کو ان پر قیاس کرکے سب پر ایک حکم لگاتے ہیں۔ ان کے مقابل ان اہلِ علم کو کیوں نہیں دیکھتے جو خاندان سے عالی ہیں یا فطرۃً سلیم ہیں یا صحبت نے ان کو درست کردیا ہے، اُن کو دیکھیں تو معلوم ہوجائے کہ ان رذائل کے اسباب دوسرے ہیں۔
اور افسوس ہے کہ اس وقت چوں کہ عالی خاندان لوگوں نے سرتاپا انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے اور عربی کثرت سے ایسے ہی لوگ پڑھنے لگے جو خاندان سے دنی دیہات میں رہنے کے سبب صحبت و تہذیب سے عاری اور اسبابِ تبدیل ابھی مجتمع نہیں ہوئے، تو لامحالہ بہت سے لوگ ایسے ہی نظر آویں گے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علمِ دین نے کسی قدر ان کو مہذب بنادیا ہے۔ اگر علمِ دین بھی نہ ہوتا تو اور زیادہ بے تہذیب ہوتے، جیسا کہ ان لوگوں میں بے علموں کو دیکھا جاتا ہے تو علمِ دین نے پھر بھی کچھ نہ کچھ تہذیب ہی کی ہے۔ پس علمِ دین کا اثر بے تہذیبی ہونا کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ اور اگر ایسی