گے؟ جواب یہ ہے کہ عام اہلِ ایمان کی رغبت و التجا بجائے امر من الامیر کے ہے کیوں کہ امیر کی امارت بھی اسی اتفاق پر مبنی ہے۔
حاصل فصل کا یہ ہے کہ علمِ دین پڑھ کر اس کو آلہ دنیا کے مال کا یا جاہ کا بنانا ۔ُعلما۔َئے سوء میں داخل ہونا اور امت کے لیے مضر بننا ہے۔ مال او رجاہ بقدر ضرورت دوسرے ذرائع سے حاصل ہوسکتے ہیں بلکہ بلااکتساب ہی اللہ تعالیٰ مخلصین متقین کو عطا فرماتے ہیں جیسا وعدہ ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی: {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجًالا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط}1
قال اللّٰہ تعالٰی: {ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ}2
تیسری فصل:
مدارس کی بعض اصلاحات میں
مدارس میں بھی بعض اصلاحات کی ضرورت ہے:
اس میں تو ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت مدارسِ علومِ دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لیے ایک ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے فوق متصور نہیں۔ دنیا میں اگر اس وقت اسلام کے بقا کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں۔ ان کو بے کار بتلانے والا معلوم ہوتا ہے ابھی تک اسلامی ضرورت سے اور مدارس کے اثر سے محض بے خبر ہے۔ مختصر بیان اس کا یہ ہے کہ اسلام نام ہے خاص عقائد اور خاص اعمال کا جس میں دیانات و معاملات و معاشرات و اخلاق سب داخل ہیں اور ظاہرہے کہ عمل موقوف ہے علمِ دین پر اور علومِ دینیہ کا بقا ہر چند کہ فی نفسہ موقوف نہیں ہے مدارس پر مگر باعتبارِ عوارضِ وقتیہ عادتاً ضرور موقوف ہے مدارس پر۔ جس شخص کو تجربہ ہوگا وہ اس حکم میں ذرا تو۔ّقف نہیںکرسکتا اورجس کو تو۔ّقف ہو وہ تجربہ کرسکتا ہے اس لیے اس میں تطویلِ کلام کی حاجت نہیں سمجھی گئی۔
غرض بالیقیں یہ مدارس خدا تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت اور بہت بڑی نعمت ہیں، لیکن اس
کے ساتھ ہی ہم جیسے بعض ۔ُعما۔ّل و ۔ُخد۔ّام کی سوئے تدبیر سے ان مدارس میں متعدد امور ایسے بھی پائے جاتے ہیں