داخل کرنے پر تعجب کیا جائے۔
تنبیہ: بعض مدارسِ اسلامیہ میں بھی اس کا رواج ہوچلا ہے احتیاط واجب ہے۔ فقط
مال خرچ کرنے میں احتیاط بخل نہیں ہے:
اور مثلاً بعض اہلِ علم پیسہ پیسہ کو سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں، ہر چیز کم خرچ کرتے ہیں بے دریغ خرچ نہیں کرتے اور اس سے بخیل مشہو رکردیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بطور لطیفہ کے مشہور ہے کہ مولوی لوگ تو پہلے ہی ’’۔َصرف نہو ‘‘پڑھ لیتے ہیں، یہ نہ ہو خرابی ہے نحو کی۔ مگر اس کو بخل سمجھنے والوں کی حالت یقینا مصداق ہے اس مصرعہ کی:
حَفِظْتَ شَیْئًا وَغَابَتْ عَنْکَ أَشْیَائُ۔1
یعنی ان کا ایک نوع کا واقعہ تو دیکھا کہ وہ کفایت شعاری کرتے ہیں مگر اور تین نوع کے واقعے اس سے زیادہ مہتم بالشان نہ دیکھے۔ ایک یہ کہ جہاں اپنے پیسہ پیسہ کی حفاظت کرتے ہیں وہاں دوسرے کی ایک ایک کوڑی کا پاس کرتے ہیں۔ یعنی ایک کوڑی کسی کی اپنے پاس رہ جانا گوارا نہیں کرتے۔ ایک ایک پیسہ کے لقطہ کے مالک کو سخت اہتمام سے تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ اتفاق سے کبھی مدرسہ میں بیٹھ کر کوئی اپنا خط لکھ لیتے حالاں کہ متولی و قیم کے لیے ایسے انتفاعات میں تنگی نہیں مگر وہ اس کو بھی گوارا نہ فرماتے اور خط لکھنے کے بعد ایک پیسہ مدرسہ میں داخل فرمادیتے کہ مدرسہ کی روشنائی خرچ ہوئی ہے۔ ہم نے بعض کو دیکھا ہے کہ انہوں نے خط کا یا اس سے بھی کم تعویذ کا کاغذ مانگا اور کسی نے حاضر کیا اور معلوم ہوگیا کہ کسی نابالغ بچے کی ملک ہے تو ہرگز نہیں لیا واپس کردیا۔ تو ان کو پیسہ سے محبت ہوتی تو ایسے انتفاعات سے کیوں احتیاط کرتے، حبِ۔ّ مال کے لیے تو حرص و طمع لازم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخل اور حبِ۔ّ مال اس کاسبب نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرتے ہیں اور حقیقت حقوق کی سمجھتے ہیں اور حدودِ شرعیہ و عقلیہ کی حفاظت کرتے ہیں۔
دوسرا واقعہ یہ کہ جہاں ایک ایک پیسہ سوچ کردیتے ہیں وہاں جس جگہ خرچ کرنا شرعاً یا عقلاً ضروری ہو وہاں ہزاروں روپے کو ایک خس کے برابر نہیں سمجھتے اور سب سے زیادہ تقاضا خرچ کا اُن کے قلوب میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۔َصرف میں تردد و توقف کا سبب بخل نہیں، ورنہ جو شخص ایک پیسہ میں بخیل ہوگا وہ ہزاروں روپے میں کیسے سخی ہوجائے گا، بلکہ سبب اس کا یہ ہے کہ علم و عقل اس کے کامل ہوجاتے ہیں۔ اور ان دونوں کا مقتضا یہ ہے کہ جب تک کسی فعل کی غایت سمجھ میں نہ آئے اس فعل کو نہ کرے۔ پس اسی لیے ۔َصرف کرنے کی غایت کو بھی وہ سمجھا جاتا ہے، جب تک سمجھ میں نہیں آتی خرچ سے رکتا ہے اور جب سمجھ میں آجاتی ہے سب سے زیادہ خرچ کرنے والا یہی ہوتا ہے۔
رہا یہ کہ بے علم اور دنیادار بھی تو کچھ غایت سمجھ ہی لیتے ہیں کیوں کہ بدون اس کے تو صدور فعلِ اختیاری کا محال ہے۔ اس