سونے کی مبادلہ میں یا حبوب و ۔ّغلات کے معاملہ میں یا ریلوے و ڈاک خانہ کے قوانین میں بے احتیاطی کرنے کو کوئی بھی خلافِ شریعت نہیں سمجھتا الاماشاء اللہ۔ سرکاری نرخ پر اگرچہ مالک سواری کاراضی نہ ہو جبر کرکے کسی سے کام لینے کو برا سمجھنے والے شاذ و نادر ہیں۔ نوکری اور لباس اور اسبابِ تفریح میں تو ایسے صاحبوں کے نزدیک کوئی جزئی ممنوع ہے ہی نہیں۔
اخلا ق میں بجز تفاخر و تحقیر مسلمین و حرصِ دنیا کے جس کا نیا لقب اس وقت ترقی ہے سیکھا ہی نہیں جنہوں نے بعض علوم کو فرضِ عین فرمایا ہے اس بعض سے یہی مقدار مراد ہے۔ اور فرض عین کایہی مطلب ہے کہ یہ سب کے لیے عام طور پر ضروری ہے۔
اور دوسری مقدار یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے تجاوز کرکے مجموعۂ قوم کی ضرورتوں پر لحاظ کرکے و نیز دوسری معترض قوموں کے شبہات سے اسلام کو جس مضرت کے پہنچنے کا اندیشہ ہے اس پر نظر کرکے ایک ایسا وافی ذخیرہ معلوماتِ دینیہ کا مع اس کے متعلقات ولواحق و آلات و خوادم علوم کے جمع کیا جائے جو سابقہ ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ یہ مقدار فرض علی الکفایہ ہے۔
علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم:
فرضِ عین کا حکم یہ ہے کہ ہر ہر شخص بانفرادہٖ اس کا مکلف ہے، جو شخص اس میں کوتاہی کرے گا وہ گناہ گار ہوگا۔ اور فرض الکفایہ کا حکم یہ ہے کہ اگر ہر مقام پر ایک ایسی جماعت قائم رہے کہ ان ضرورتوں کو پورا کرسکے تو سب مسلمان گناہ سے بچے رہیں گے، ورنہ سب گناہ میں شریک ہوں گے۔ اس تقریر سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ ۔ُعلما۔َ علمِ دین کو بایں معنی ضروری نہیں کہتے کہ ہر شخص اصطلاحی مولوی بنے، پھر علو مِ معاش میں جرح واقع ہونا کیوں کر لازم آیا جس کا وسوسہ عوام کو مانع ہورہا ہے۔ تکمیلِ علومِ دینیہ سے البتہ یہ انتظام ہونا ضروری ہے کہ کافی تعداد میں ایک معتدبہٖ جماعت ایسی ہو جو ہر طرح علومِ دینیہ میں کامل و مکمل محقق متبحر ہوں، اور ایک بڑا حصہ عمر کا تحصیل میں اور تمام عمر اس کی اشاعت و خدمت میں صرف کریں اور اس کے سوا ان کو کوئی کام نہ ہو۔ قرآن مجید کی اس آیت میںاس جماعت کا ذکر ہے: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}1 حدیثوں میں حضرات اصحابِ صفہ۔ّ کی یہی شان آئی ہے۔
۔ُعلما۔َ سے علم حاصل کرنے کا طریقہ: