ایسے لوگ (گو قلیل ہی سہی) ثابت ہوں گے کہ ان کو فطری طور پر تقریر و تحریر سے مناسبت کم ہوگی۔ سو ایسے لوگ اپنے عمل کے لیے علم پڑھیں دوسروں کے افادہ کے لیے اور بہت لوگ مل سکیں گے، یہ کیا فرض ہے کہ ہر کام ہر شخص کیا کرے۔ اسی کے متعلق ایک شبہ خط کے خام ہونے کا ہے، سو میرے نزدیک یہ امر کوئی قابلِ التفات نہیں۔ خط کا صاف ہونا تو ضروری امر ہے کہ بے تکلف پڑھا جائے، کیوں کہ بدون اس کے جو مقصود ہے کتابت سے وہی فوت ہوتا ہے۔ باقی باقاعدہ اور خوشنما ہونا یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے، اس کو ضروری سمجھنا یہ ایک عامی خیال ہے۔
دنیا کے قصوں سے بے خبر ہونے کا شبہ:
ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ طالبِ علموں کی عقل کم ہوتی ہے۔ معاملات کو نہیں سمجھتے۔ اکثر دنیا کے قصوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی ایسا مسئلہ پوچھا جاوے جس کا تعلق کسی معاملہ سے ہو تو اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ اگر کوئی انتظامی کام ان کے سپرد کیا جاوے تو اس کو کر نہیں سکتے۔ اس شبہ میں بھی نہایت ہی عام تدبر سے کام لیا گیا ہے۔ اس معترض نے عقل اور تجربہ کو ایک قرار دیا ہے حالاں کہ ان دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ کیا اگر کسی بڑے عاقل فاضل شخص کو یہ نہ معلوم ہو کہ فلاں کارخانے میں فلاں نمبرکا جوتا کس قیمت کا ہے تو کیا اس کو اتنی بات پر بے وقوف کہہ دیں گے؟ اگر کوئی ایسا کہے گا تو وہ خود اس لقب کے قابل ہوگا۔ اسی طرح اہلِ علم کو جن معاملات سے سابقہ کم پڑتا ہے یا نہیں پڑتا، ان کے متعلق ان کی معلومات کم ہوتی ہیں یا نہیں ہوتیں اور ایسے ہی امور کی نسبت جب ان سے ناتمام عبارت میں سوال کیا جاتا ہے تو ان کو اس سوال کے اجزا کے سمجھنے کی ضرورت ہونا پھر محلِ تعجب یا اعتراض کیا ہے۔ کمی تو سائل کی ہے کہ اس کو اظہارِ واقعہ کا سلیقہ نہیں۔ اور ایسے افہام و تفہیم کی احتیاج تو ہائی کورٹ کے ججوں تک کو ہوتی ہے کہ اکمل ۔ُعلما۔َئے قانون و افضل عقلائے ملک تسلیم کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہم شب و روز دیکھتے ہیں کہ انگریزی خواں بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرکے سرٹیفکیٹ لے کر آتے ہیں اور ادنیٰ سا کام سب انسپکٹری یا نائب تحصیل داری کا بھی بدون سکھلائے نہیں کرسکتے۔ تعجب ہے کہ دونوں طرف ایک ہی حالت پھر اس حالت کا نام ایک طرف ناتجربہ کاری اور دوسری طرف بے عقلی رکھا جائے، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ اگر اہلِ علم کسی طرف ادنیٰ توجہ کرتے ہیں تو وہ ان دنیا کے کاموں کو بھی ایسا اچھا کرتے ہیں کہ بڑے بڑے تجربہ کار دنگ رہ جاتے ہیں۔ چناں چہ اس کے زندہ نظائر بکثرت موجود ہیں۔