سے وہ وبال استحصال بالکراہت کا خفیف ہوجاتا ہے۔ اور یہ حضرات جہاں اس کو خرچ کرتے ہیں ظاہر ہے کہ دین تو ہے نہیں کہیں مباح ہوتا ہے اور اکثر معصیت، تو دینے والے کا افسوس کبھی دور نہیں ہوتا۔ اور اس وجہ سے اس خاص طرز سے استحصال کا وبال ہمیشہ گلوگیر رہتا ہے۔
غرض یہ بلا ان اہلِ وجاہت میں بھی مع زیادہ قابلِ زیادات پائی جاتی ہے، اور اس وجہ سے ان حضرات کو اہلِ علم پر اس خاص عمل کے متعلق کوئی اعتراض یا نکیر کرنے کا بالکل حق حاصل نہیں، لیکن کسی بلا کے عام اور مشترک ہونے سے اس میں جواز نہیں پید اہوسکتا، اس لیے اہلِ علم کو اس کے ارتکاب کی یا اس میں اہلِ دنیا کے تقلید کی ہرگز گنجایش نہیں۔ اہلِ دنیا جو چاہیںکریں اہلِ علم کو اپنے علم کے مقتضا کے خلاف ہرگز کرنا نہ چاہیے، اول تو فی نفسہٖ عند اللہ بھی برا ہے اور جان کر اور زیادہ برا ہے:
فَإِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِيْ فَتِلْکَ مُصِیْبَۃٌ
وَإِنْ کُنْتَ تَدْرِيْ فَالْمُصِیْبَۃُ أَعْظَمُ۔1
پھر اس کا اثر دوسروں پر بھی برا پڑتا ہے۔ چناں چہ عام لوگ اکثر مواقع پر یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ میاں! جب مولوی ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔ تو اس طور پر ایسے اعمال ضلال کے ساتھ اضلال کی بھی شان رکھتے ہیں، اور ضلال و اضلال کی وعیدیں مخفی نہیں صرف تین حدیثیں لکھے دیتا ہوں۔ ایک ضلال کی، ایک اضلال کی، ایک مشترک۔
شیخین نے روایت کیا ہے:
عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : یُجَائُ بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہٗ فِي النَّارِ فَیَطْحَنُ فِیْھَا کَطَحْنِ الْحِمَارِ بِرَحَاہُ فَیَجْتَمِعُ أَھْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُوْنَ: أَيْ فُلَانٌ! مَا شَأْنُکَ؟ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ؟ قَالَ: کُنْتُ اٰمُرُ کُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَا آتِیْہِ، وَأَنْھَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ۔2
اور حدیث ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً فَعَلَیْہِ وِزْرُہٗ وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أوْزَارِھِمْ شَيْئٌ۔3
اور دارمی میں ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَائِ، وَإِنَّ خَیْرَ الْخَیْرِ خِیَارُ الْعُلَمَائِ۔1
علما۔َ کو نصیحت: