کیوں کہ وہ اپنے نفع کے لیے ہے یدل علیہ قولہ تعالٰی: {وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ}1
تیسری فصل
کیا مولوی بننے سے پست خیالی او رکم ہمتی پیدا ہوتی ہے؟
بعض دنیا داروں کا یہ اعتراض ہے کہ مولوی ہوکر پست خیالی اور کم ہمتی اور ذلت پسندی اور تنگ چشمی و دناء ت اور قوتِ انتظامیہ کی کمی وغیرہ صفاتِ رذیلہ پیدا ہوجاتی ہیں، چناں چہ طلبۂ عربی کے حالات دیکھنے سے اس کا پتہ چلتا ہے۔ اس لیے ان صاحبوں کو علومِ دینیہ سے بددلی و بے رغبتی ہوگئی اور اپنی اولاد کے لیے ان رذائل کے اندیشہ سے مولویت کو پسند نہیں کیا۔ یہ ہے حاصل ان صاحبوں کے حال اور خیال کا درباب علمِ دین و ۔ُعلما۔َ ئے دین کے۔ مگر ان صاحبوں نے ان احکام میں حقیقت شناسی سے کام نہیں لیا بالکل سطحِ نظر سے نہایت عجلت کے ساتھ بلاثبوت فیصلہ کردیا، جس کی بنا پر خود ان صاحبوں پر اگر ناواقفی و بے تحقیقی و تو۔ّہم پرستی و ظاہر بینی و کوتاہ نظری کا الزام لگایا جائے تو بالکل صحیح ہے۔
اب میں حقیقتِ واقعیہ عرض کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ ان الفاظ کے (جن کو صفاتِ رذیلہ کا معبر۔ّ ٹھہرایا ہے) اول صحیح مفہومات کی تعیین ضروری ہے تاکہ اس کا فیصلہ ہوتا کہ آیا ان حضرات معترضین نے انہیں مفہومات میں ان کا استعمال کرکے اہلِ علم میں ان کا تحقق تحقیق کرلیا ہے، یا ان مفہوماتِ صحیحہ کو چھوڑ کر دوسرے معنی اپنی اصطلاح میں ٹھہرائے ہیں۔ سو جہاں تک ان حضرات معترضین کے اقوال و افعال میں غور کرنے سے سمجھ میں آیا ہے، یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں مال کی ترقی نہ کرنے کو پست خیالی اور ترقی کی فکر و تدبیر نہ کرنے کو جو کہ قناعت ہے کہ کم ہمتی اور اخلاق میں جاہ و کبر کی تحصیل نہ کرنے کو اور وضع میں سادگی اختیار کرنے کو ذلت پسندی اور اپنے پرائے کے حقوق کے امتیاز کو تنگ چشمی اور اسراف نہ کرنے کو دناء ت اور دنیوی فضولیا ت میں انہماک اور دلچسپی نہ ہونے کے سبب اپنے بعض مصالح میں فروگذاشتوں کو فقدانِ قوتِ انتظامیہ نام رکھ لیا ہے، اور اکثر اہلِ علم میں ان امور کو دیکھ کر ان کی طرف صفاتِ رذیلہ کو منسوب کیا ہے۔
سو واقعی ان امور کا اکثر اہلِ علم میں ہونا ۔ُمسلم۔ّ ۔ مگر کیا یہ امور واقعی رذائل ہیں یا خلاف ان کے زعم کے فضائل ہیں؟ تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے تو قرآن و حدیث اس کے فیصلے کے لیے کافی ہے۔ آیت کریمہ: