۹۷
مدرّسین سے گزارش
۹۸
کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ
۹۸
طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے
۹۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّي عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
علومِ دینیہ سے بے رغبتی کے اسباب:
یہ احقر اشرف علی رقم طراز ہے کہ جس مبحث پر میں اس وقت لکھنا چاہتا ہوں اجمالی تعیین اس کی عنوانِ بالا سے ظاہر ہے۔ اور تفصیلی تعیین اس کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں علومِ دینیہ کی طرف سے عام بے رغبتی کی جو حالت ہے اس کے بیان کی حاجت نہیں، اور سبب اس کا تأمل سے کام لینے سے دو امر معلوم ہوئے: ایک کا عام لوگوں سے تعلق ہے، دوسرے کا ۔ُعلما۔َ سے۔
امرِ اول: عام لوگوں کی بے خبری ان تعلقات سے جو علومِ دینیہ کو عام معاملات سے ہیں، یا ان کے وہ خیالات و شبہات ہیں جو علومِ دینیہ کے نتائج و اغراض یا طالبین و محصلینِ علوم یا حال کے مقتدایانِ دین کے خاص حالات کی نسبت ان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً خواہ تہذیب کے ساتھ یا مطلق العنانی کے ساتھ ان کی زبان اور قلم سے ظاہر ہوا کرتے ہیں۔
امرِ ثانی: اہلِ علم مشتغلین یا فارغین کے بعضے نامناسب افعال و ناموزوں اعمال ہیں جو بوجہ نقصِ علم یا فقدانِ تہذیب و ترتیب بعض سے صادر ہوجاتے ہیں اور عام لوگ ان پر مطلع ہوکر بقیہ کو بھی ان پر قیاس کرکے سب پر ایک حکم لگا کر علوم سے نفرت قائم کرلیتے ہیں، یا اگر عام کو بھی احساس نہ ہو تب بھی بعض اعمال کے خود مفاسد ایسے ہوتے ہیں جو جمہور میں کوئی ایسا برا اثر جو شرعاً ناپسندیدہ ہے پیدا کردیتے ہیں۔ چوں کہ یہ بے رغبتی جو اُن دو امر سے مسبّب ہے، سبب بن رہی ہے یوماً فیوماً علوم کی کمی