اور مثلاًاہلِ علم کے افعال منضبط کم ہوتے ہیں۔ چناں چہ طالبِ علموں کا بے ڈھنگا پن تمام انتظامی امور میں دیکھا جاتا ہے۔ اس اعتراض میں بھی کچھ واقعیت ضرور ہے، مگر واقعیت کے ساتھ غلو بھی ہے۔ اس کی تحقیق منشا کی اور اس کا انسداد مثل بالا کے ہے، اور ایک سبب ان اخیر کی مذکورہ کوتاہیوں کا یہ بھی ہے کہ بکثرت طالبِ علم خاندان سے گرے ہوئے ہیں اور سلیقہ کی کمی ان میں عام ہے، پھر جو خاندانی ان میں مل جاتا ہے بحکم الغلبۃ للٔاکثر وہ بھی ان کا ہم رنگ ہوجاتا ہے۔ پس ذمہ داران کوتاہیوں کا علمِ دین نہیں ہے بلکہ خاندان اور صحبت کی کمی ہے۔
چوتھی فصل
کیا مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں؟
تیسری فصل میں دنیاداروں کے وہ شبہات تھے جو ایسے اخلاق کے متعلق ہیں جن کا دوسرے سے زیادہ تعلق نہیں ہے۔ ان کے بعضے شبہات وہ ہیں جو ایسے اخلاق کے متعلق ہیں جن کا دوسروں سے تعلق ہے اس فصل میں ان کا بیان ہے۔ پس اہلِ علم کی نسبت بعض کا یہ اعتراض ہے کہ اکثر اہلِ علم کو دیکھا جاتا ہے کہ سوال کے وقت غصہ کرتے ہیں جس کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں: یا تو جواب نہیں آتا، یا تعصب کا غلبہ ان کو جوش میں لاتا ہے۔ چناں چہ اس کے بعض اور بھی آثار پائے جاتے ہیں، مثلاً اپنی بات پر اصرار کرنا دوسرے کی بات کو سمجھنے کا قصد نہ کرنا۔ اور یہ اعتراض ہے کہ ان میں تہذیب کم ہوتی ہے جس سے دوسروں کو اذیت ہوتی ہے، حیا کم ہوتی ہے۔ اور یہ اعتراض کہ ان میں باہم حسد اور نفسانیت ہوتی ہے جس سے دوسروں کو تنگی ہوتی ہے کہ ایک کے پاس جاویں تو دوسرے کی شان میں گستاخی کریں یا سنیں، دوسرے کے پاس جاکر پہلے کے لیے یہی معاملہ کریں۔ اور یہ اعتراض کہ ان میں جوابِ خطوط کی پابندی نہیں ہوتی ہے، دوسرے کو تکلیف انتظار کی ہوتی ہے۔ اس کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ یہ شبہ عربی خوانوں کے ساتھ کیوں مخصوص کیا جاتا ہے، انگریزی کے فاضلوں میں یہ اخلاق بہ درجہا زائد مقدار میں پائے جاتے ہیں، ذرا خلاف بات ہوجائے غصہ سے بے خود ہوجاتے ہیں، سخن پروری بوجہ کبر کے بہت کچھ کرتے ہیں، تہذیب کی کمی تو ایسا امر مشاہد ہے جس میں بیان ہی کی حاجت نہیں جس کی طرف چاہا پشت کرلی جس کی طرف چاہا پائوں مع جوتوں کے پھیلادیا، بزرگوں کا ذرا ادب نہیں کیا جاتا، ماں باپ کے ساتھ مساوات بلکہ تحقیر کا معاملہ کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ کیا بے حیائی ہوگی حسد اور نفسانیت بلکہ توتو میں میں ایک عہدۂ جلیلہ کے طالبوں میں گو اس پر تنخواہ بھی نہ ملے قابل دیکھنے کے ہے۔ جس شخص کو قابلِ خطاب نہیں سمجھتے اس