بنانے کا وسوسہ بھی لائیں، بلکہ ہر طرح ان کو ان کے تابع ہونا پڑتا ہے اور یہی امر مہتم بالشان ہے۔ اور اگر خود اُ۔َمرا آویں تو یہ اختلاط منہی عنہ نہیں عین مطلوب ہے، اُس وقت ان سے بے رخی نہ کرے اخلاق سے پیش آئے مگر استغنا کو اب بھی ہاتھ سے جانے نہ دے۔
بعض مولویوں کی غلطی اور اس کا نقصان:
بعضے غرضِ مال کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ کسی سے صراحۃً یا اشارۃً مانگتے وانگتے نہیں خود خدا تعالیٰ نے ان کو ظاہری غنی بنایا ہے۔ مثلاً: تاجر ہیں زمین دار ہیں یا کسی کوٹھی میں نقد روپیہ جمع ہیں اس سے منتفع ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان کو کسی کے سامنے حاجت پیش کرنے کی یا کسی کے ہاتھ کی طرف دیکھنے کی نوبت نہیں آتی، لیکن اپنے معاملاتِ مالیہ میں ایسا کرتے ہیں کہ اگر شریعت پر عمل کرنے سے ان کی کوئی منفعتِ مالیہ ضائع یا مختل ہوتی ہو تو وہاں ضعیف تاویلوں سے اور غیر مشروع حیلوں سے (گو نام ان کا حیلۂ شرعیہ رکھتے ہیں) کام لیتے ہیں اور اس منفعت کو فوت نہیں ہونے دیتے۔ اور ان دنیادار مولویوں پر یہ خصلت یہاں تک غالب ہوگئی کہ یہ جملہ عام لوگوں کے زبان زد ہوگیا کہ مولوی اپنے مطلب کا مسئلہ جس طرح چاہیں بنالیتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر گناہ کرکے سمجھے اور اپنے گناہ گار ہونے کا اقرار کرے اس کا مفسدہ اتنا نہیں ہے جتنا گناہ کو کھینچ تان کرکے جائز بنانے کا مفسدہ ہے۔ عام لوگ گمراہ ہوتے ہیں، ۔ُعلما۔َ سے بداعتقاد ہوتے ہیں، پھر وہ اپنے معاملات میں بھی تاویلیں اور حیلے پوچھتے ہیں۔ اور اگر ان کو کوئی نہیں بتاتا تو وہ قیاسِ فاسد سے کام لے کر خود ہی من سمجھوتی کرلیتے ہیں گو ان کی تاویل اور بھی لغو اور مہمل ہو مگر عوام کو فرق کی تمیز کہاں۔
۔ُعلما۔َ کی شان تو یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بلاتاویل بھی جائز مگر کسی وجہ سے اس کے ارتکاب میں عوام کو دینی مضرّت ہو تو اپنا تھوڑا ضرر دنیا کا جس قدر تحمل ہوسکے گوارا کرلیں اور عوام کا دین بچائیں، نہ کہ عوام کے لیے دروازہ فتنہ کا کھول دیں۔ دارمی میں اس مضمون کی حدیث بھی ہے:
عَنْ زِیَادِ بْنِ حُدِیْرٍ قَالَ لِيْ عُمَرُؓ : ھَلْ تَعْرِفُ مَا یَھْدِمُ الإِْسْلَامَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: یَھْدِمُہٗ زَلَّۃُ الْعَالِمِ وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْکِتَابِ وَحُکْمُ الْأَئِمَّۃِ الْمُضِلِّیْنَ۔1
لیکن اس سے کوئی شخص ان وجوہِ تصحیحِ معاملات پر گو ان کو بھی بعض کتب میں بعنوانِ حیلہ تعبیر کیا گیا ہے شبہ نہ کرے جن کا بلا کسی نفسانی غرض کے عام مسلمانوں کو مضائق میں سے نکالنے کے لیے اور ان کو معاصی سے بچانے کے لیے صورتِ اضطرار میں اذن دیا گیا ہے۔ جیسا خود حدیث شریف میں: بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاھِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاھِمِ التَّمَرَ وَنَحْوَہٗ۔1 آیا ہے۔ مابہ الفرق دونوں قسم میں یہ ہے کہ جس سے مقصود کسی مقصودِ شرعی کا ابطال ہو وہ مذموم او رجس سے مقصود کسی مقصود