اَلْبَابُ الثَّانِيْ
حُقُوْقُ الْعِلْمِ عَلَی الْعُلَمَائِ الْأَعْلَامِ وَالطَّلَبَۃِ الْکِرَامِ
پہلی فصل
عمل کی ضرورت نہ ہونے کا غلط خیال:
بعض طلبا یہ خیال کرتے ہیں کہ ابھی تو ہمارا زمانہ تحصیلِ علم کا ہے اس زمانہ میں عمل کی چنداں ضرورت نہیں بعد فراغ عمل بھی کرلیں گے، اور یہ سراسر شیطانی دھوکہ ہے۔ نصوص نے طلبہ اور ۔ُعلما۔َ میں وجوبِ احکام میں کہیں فرق نہیں کیا۔ پھر اس خیال کی گنجایش کب ہوسکتی ہے۔ البتہ اعمالِ زائدہ جن میں زیادہ وقت ۔َصرف ہو وہ بے شک طلبہ کے لیے مناسب نہیں۔ جیسے اور ادِطویلہ و مجاہدات و ریاضات اہلِ تصوف کے ان میں مشغول ہونے سے مطالعۂ درس و تکرارِ سبق میں مشغول ہونا طالبِ علم کے لیے افضل ہے۔ بعض بے باک طلبہ میں ایک قول مشہور ہے: یَجُوْزُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ مَا لَا یَجُوْزُ لِغَیْرِہٖ اگر یہ اپنے عمومِ ظاہری رکھا جائے تب تو اس کے جواب میں {ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ}1 پڑھ دینا کافی ہے، اور اگر عموم پر نہ رکھا جائے تو مطلق العنانی و بدعملی کے جواز کے لیے مفید نہیں۔ اگر یہ کسی معتبر قائل کا قول ہے تو معنی یہ ہیں کہ بہت سے امور غیر اہلِ حاجت کے لیے درست نہیں، جیسے صدقہ و خیرات کا لے لینا یا کوئی چیز کسی سے ضرورت کے وقت مانگ لینا وہ طالبِ علم کے لیے بوجہ حاجت مند ہونے کے مباح ہے، تو مدار اس حکم کا خاص وصف طالبِ علمی نہیں بلکہ احتیاج ہے۔ چوں کہ طالبِ علم بھی اکثر صاحبِ احتیاج ہوتا ہے اس لیے یہ بھی ایک عنوان احتیاج کا ہوا۔ پس غیر سے مراد اس بنا پر غیر محتاج ہوگا نہ مطلق غیر طالبِ علم، اور مَا اپنے عموم پر نہ ہوگا بلکہ بدلائل شرعیہ خصوص میں مستعمل ہوگا۔
دوسری فصل: