نام تکمیل ہوجاتی ہے او رکسی کام کے لائق ہوتے نہیں۔ پس اس سے بھی وہی مفاسدِ مذکورہ نمبر ۷ حادث ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو پابند قواعد کا بنایا جائے خواہ طالبِ علموں کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہوجائے کام کے دوچار ناکارہ سو دو سو سے بھی افضل ہیں۔
۱۰۔ مدارس میں تجوید اور اخلاق کی کتاب داخلِ درس ہونا ضروری ہے:
اکثر مدارس میں تجوید کا علم و عمل داخلِ نصاب نہیں۔ اسی طرح اخلاق کی کوئی کتاب درس میں نہیں۔ اول کی کمی کا یہ نتیجہ ہے کہ اکثر طلبا بلکہ ۔ُعلما۔َ بھی افسوس ہے کہ قرآن مجید اچھا نہیں پڑھتے جس پر عوام بھی ہنستے ہیں۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ عالم امام ہو اور نماز بروئے فقہ درست نہ ہو۔ دوسری کی کمی کی مضرتیں اس قدر کثیر ہیں کہ بیان نہیں ہوسکتا۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ۔ُعلما۔َ کی اس فن سے بے خبری کی بدولت جھوٹے مکار پیر بن گئے اور وہ خلقت کی دنیا و دین کو ذبح کررہے ہیں۔ طلبہ پر لازم کیا جاوے کہ تجوید علماً و عملاً حاصل کریں اور کتبِ اخلاق کو درس میں داخل کریں اور بعد فراغ التزاماً طلبہ محققینِ اہل اللہ کی خدمت میں حسبِ گنجایش قیام کریں اور ان سے آداب و اخلاق سیکھیں اور ان کی صحبت سے برکت حاصل کریں اور چندے ان کی خدمت میں آمدورفت رکھیں جس سے کہ نسبت باطنہ ایک گونہ راسخ ہوجائے۔ پھر خلق اللہ کے ارشاد کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ عموماً عوام اہلِ اسلام ان سے وابستہ ہوکر جھوٹوں کو چھوڑ دیں گے اور مضمون {قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ O}1 آنکھوں سے نظر آجاوے گا۔
۱۱۔ مدارس کا باہم تصادم بہت نقصان دہ ہے:
بعض مدارس میں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ سبب مدارس اسلامیہ کی غرض متحد ہے یعنی خدمتِ علومِ دینیہ، مگر پھر بھی ان میں سے بعض میں باہم تزاحم و تصادم ہوتا ہے۔ کہیں اعلانیہ کہ ہر مدرسہ کی طرف سے دوسرے مدرسہ کے خلاف تحریراً و تقریراً سعی ہوتی ہے۔ اشتہارات میں دوسرے کو گھٹایا جاتا ہے۔ اہلِ چندہ کو دوسری جگہ کی اعانت سے منع کیا جاتا ہے۔ اور کہیں خفیہ طور پر کہ عوام کو تو اطلاع نہ ہو مگر کارکن لوگ اور دوسرے اہلِ فہم بھی سمجھ جاتے ہیں پھر شدہ شدہ عوام پر بھی اس کا ظہو رہوجاتا ہے، اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ بس یہ مدارس اسی غرض سے قائم کیے گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے مال و جاہ حاصل کریں، ورنہ اگر محض دین مقصود ہوتا تو دوسرے کو دینی خدمت