Deobandi Books

حقوق العلم - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

10 - 82
اور جہل کی زیادت کا جو کہ اس کے لوازم سے اس کا عین ہے، اور اس کا ثمرہ ہے بربادی آخرت کی بالذات اور بربادی دنیا کی بواسطہ، جیسا کہ ارشاداتِ حقہ سے ثابت ہے کہ عقائد و اعمالِ فاسدہ سے دنیا کا بھی خسارہ ہوتا ہے گو بوجہ فسادِ مدرکہ کے فی الحال محسوس نہ ہو، لیکن مدرکہ سے کام لینے سے فوراً مدرک ہوجاتا ہے۔ کما قال اللّٰہ تعالٰی: {اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّہُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ہُمْ یَذَّکَّرُوْنَO}۔1 وغیر ذٰلک من الآیات الکثیرۃ والأحادیث الوافرۃ(چناں چہ کسی قدر بسط کے ساتھ یہ مضمون میرے رسالہ ’’جزاء الاعمال‘‘ میں مذکور ہوا ہے)۔ اور اس صورت میں کون عاقل ہوگا کہ اس خسارۂ دارین کے تدارک کی ضرورت میں اس کو کلام ہوگا؟اور تدارک کا حاصل ہے رفعِ اسبابِ فساد۔ اور اس فساد کا سبب علم کی کمی تھی، اور اس کا سبب وہ دو امرِ بالا تھے۔ پس لامحالہ ان دو امروں کا ازالہ مرجع اخیر ہوا تمام تر اصلاحات کا۔
پس یہ تحریرِ مختصر انہیں دونوں امورِ مذکورکی اصلاح ہے۔ یہ تفصیلی تعیین ہے اس مبحث کی۔ پس بنا بر تقریر ہذا اس تحریر کے دو جز ہوں گے: ایک عام اصحاب کو ان کی ان اغلاط پر متنبہ کرنا جو درباب علم و اہلِ علم ان کو واقع ہورہی ہیں۔ دوسرا خاص حضرات اہلِ علم کو ان کے بعض امور اصلاحیہ کی طرف متوجہ کرنا جو علم و عمل کے متعلق ہیں۔ اور چوں کہ یہ سب اصلاحاتِ عامیہ و خاصیہ علمِ دین کے حقوق مہتم بالشان سے ہیں اس لیے اس تحریر کا نام حقوق العلم اور اس کے پہلے جز کا عنوان ’’حُقُوْقُ الْعِلْمِ عَلَی الْعَوَامِ مِنْ أَھْلِ الإِْسْلَامِ‘‘ اور دوسرے جز کا لقب ’’حُقُوْقُ الْعِلْمِ عَلَی الْعُلَمَائِ الْأَعْلَامِ وَالطَّلَبَۃِ الْکِرَامِ‘‘ تجویز کرتا ہوں۔ اور ان دونوں جزوں کو دو باب پر، پھر ہر جز کے مجموعی مضامین کو ایک ایک فصل پر منقسم کرتا ہوں۔
محرک اس کے (کہ وہ اس حیثیت سے مستحق دعائے خیر کے ہیں) مشفقی مکرمی منشی فضل حسین صاحب مالک رسالہ ’’ضیاء الاسلام‘‘ مراد آباد ہیں۔ اور سببِ تحریک (کہ وہ اس حیثیت سے مستحق دعائے برکت و اعانت ہے) ان کا ایک نیا پرچہ مسمی بہ ’’المشیر‘‘ ہے جس کا موضوع خاص علومِ دینیہ کی خدمت ہے۔ اس کے جس پہلو کے بھی متعلق ہو جس کا سلسلہ انہوں نے اپنے پرانے پرچہ ’’ضیاء الاسلام‘‘ ہی سے بقدر ضرورت شروع کردیا تھا، مگر بیعۃً اور استقلال میں ماہیۃً و اثراً جو تفاوت ہے اس نے ایک نئے پرچہ کی ضرورت کوبھی ثابت کردیا، اور اسی ضرورت سے مجھ کو اس کی تحریک کی۔ پس امتثالا لأمر الممدوح واحتسابًا وخدمت دین میں اس تحریر کو اس پرچہ کی نذر کرتا ہوں۔ اور اس تحریر کے ختم پر عجب نہیں کہ دوسرے مبحث کے ذریعہ سے اور کوئی خدمتِ دین تجویز کرکے اس پرچہ کی نذر کرسکوں۔ واللّٰہ الموفق۔


اَلْبَابُ الْأَوَّلُ

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 علومِ دینیہ سے بے رغبتی کے اسباب 9 1
3 اَلْبَابُ الْأَوَّلُ 10 1
4 دین کے اجزا 11 3
5 علمِ دین کے دو مرتبے 11 3
6 علم کے ہر مرتبہ کو سیکھنے کا شرعی حکم 13 3
7 ۔ُعلما۔َ سے علم حاصل کرنے کا طریقہ 13 3
8 دو شبہات کے جواب 14 3
9 کیا مولوی بننے سے پست خیالی او رکم ہمتی پیدا ہوتی ہے 17 3
10 باب اول کی تیسری فضل کے بعض اجزا کی ضروری توضیح اور تفریع 21 3
11 مال خرچ کرنے میں احتیاط بخل نہیں ہے 22 3
12 صرف عربی زبان جاننے کا نام مولوی نہیں ہے 23 3
13 باریک لکھنے پر اعتراض کا جواب 24 3
14 تواضع کو تذلل سمجھنا غلط ہے 24 3
15 کمروں کی صفائی نہ کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب 25 3
16 طلبہ کے کپڑوں پر شبہ کا جواب 26 3
17 طلبہ کا بے ڈھنگا پن 26 3
18 کیا مولوی بدتہذیب ہوتے ہیں 27 3
19 متفرق شبہات کے جوابات 33 3
20 ۔ُعلما۔َ کے درمیان عناد و حسد ہونے کا شبہ 33 3
21 ۔ُعلما۔َ کا آپس میں اختلاف کرنا 34 3
22 زمانہ کی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کا شبہ 36 3
23 ۔ُعلما۔َ کا لوگوں کے حال پر رحم نہ کرنے کا 37 3
24 تقریر و تحریر سے واقف نہ ہونے کا شبہ 38 3
25 دنیا کے قصوں سے بے خبر ہونے کا شبہ 39 3
26 اَلْبَابُ الثَّانِيْ 40 1
27 عمل کی ضرورت نہ ہونے کا غلط خیال 40 26
28 علومِ دینیہ کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کی غلطی 41 26
29 احتمال، وسوسہ، طمع اور اشراف میں فرق 42 26
30 مدرسہ یا انجمن کے لیے سوال کرنے کا حکم 43 26
31 علما۔َ کو نصیحت 45 26
32 بعض مولویوں کی غلطی اور اس کا نقصان 47 26
33 بعض ۔ُعلما۔َ کا خیال غلط اور اس کا نقصان 48 26
34 اُ۔َمرا سے اجتناب کے وقت کیا نیت ہونی چاہیے 50 26
35 دنیاداروں کو دھتکارنا مناسب نہیں ہے 50 26
36 شہرت حاصل کرنے کی ایک حرکت 51 26
37 مناظرہ کرنا کب ضروری ہے 52 26
38 مناظرہ کے شرائط 55 26
39 مناظرہ کے شرائط و مفاسد سے چشم پوشی کا نتیجہ 56 26
40 پہلے ۔ُعلما۔َ کے مناظرہ پر اپنے مناظرہ کو قیاس کرنا درست نہیں ہے 57 26
41 وعظ کو طلبِ جاہ کا ذریعہ بنانے کی خرابی 58 26
42 مدارس کی بعض اصلاحات میں 59 1
43 مدارس میں بھی بعض اصلاحات کی ضرورت ہے 59 42
44 زبردستی چندہ لینا درست نہیں 60 42
45 دوامی چندہ نہ دینے والوں کے نام شائع کرنا بری بات ہے 61 42
46 صحیح حیلۂ تملیک 61 42
47 چندہ کی رقم میں عدمِ احتیاط 62 42
48 کھانے کے لیے طلبہ کو کسی کے گھر بھیجنا مناسب نہیں ہے 62 42
49 طلبہ کے اعمال اور وضع قطع پر روک ٹوک ضروری ہے 63 42
50 کمالِ علمی کے بغیر سندِ فراغ دینا نقصان دہ ہے 63 42
51 مدارس میں تقریر و تحریر کا انتظام کرنا چاہیے 63 42
52 طلبہ کی رائے کے مطابق تعلیم مناسب نہیں ہے 63 42
53 مدارس میں تجوید اور اخلاق کی کتاب داخلِ درس ہونا ضروری ہے 64 42
54 مدارس کا باہم تصادم بہت نقصان دہ ہے 64 42
55 مسلمانوں کو تنبیہ 65 42
56 بعض مدرسین کی کوتاہی 65 42
57 واعظین و مصنّفین اور مفتیوں کی اصلاحات 66 1
58 اہلِ علم کا وعظ نہ کہنا غلط ہے 66 57
59 بعض واعظین کی کوتاہیاں 67 57
60 تصنیف میں کوتاہیاں،اصلاحات متعلقہ تصنیف 67 57
61 فتویٰ دینے میں کوتاہیاں 67 57
62 متفرق اصلاحات 69 1
63 اہلِ علم کا لباس وغیرہ میں تکلف کرنا نامناسب ہے 69 62
64 اہلِ دنیا کا سلوک ۔ُعلما۔َ کے ساتھ 70 62
65 ناصح الطلبہ 71 62
66 طلبہ میں انقلاب 72 62
67 طلبہ کی نااہلی کا غلط ثمرہ 73 62
68 عو ام کا غلط نظریہ 73 62
69 علما۔َ سے درخواست 74 62
70 طلبہ میں بداستعدادی کے اسباب 74 62
71 مدرسین کو چاہیے کہ طلبہ کی استعداد سے کام لیں 75 62
72 طلبہ کی فہم کی قوت کو کام میں لانے کی ضرورت ہے 75 62
73 ہر مضمون کی تقریر استاد نہ کیا کریں 77 62
74 طلبہ سے کتاب حل نہ کرانے کا عذر 78 62
75 مدرّسین سے گزارش 79 62
76 کم عمر طلبہ کی تربیت کا طریقہ 79 62
77 طلبہ کو بے تکلفی اور سادگی اپنانی چاہیے 80 62
Flag Counter