اور جہل کی زیادت کا جو کہ اس کے لوازم سے اس کا عین ہے، اور اس کا ثمرہ ہے بربادی آخرت کی بالذات اور بربادی دنیا کی بواسطہ، جیسا کہ ارشاداتِ حقہ سے ثابت ہے کہ عقائد و اعمالِ فاسدہ سے دنیا کا بھی خسارہ ہوتا ہے گو بوجہ فسادِ مدرکہ کے فی الحال محسوس نہ ہو، لیکن مدرکہ سے کام لینے سے فوراً مدرک ہوجاتا ہے۔ کما قال اللّٰہ تعالٰی: {اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّہُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ہُمْ یَذَّکَّرُوْنَO}۔1 وغیر ذٰلک من الآیات الکثیرۃ والأحادیث الوافرۃ(چناں چہ کسی قدر بسط کے ساتھ یہ مضمون میرے رسالہ ’’جزاء الاعمال‘‘ میں مذکور ہوا ہے)۔ اور اس صورت میں کون عاقل ہوگا کہ اس خسارۂ دارین کے تدارک کی ضرورت میں اس کو کلام ہوگا؟اور تدارک کا حاصل ہے رفعِ اسبابِ فساد۔ اور اس فساد کا سبب علم کی کمی تھی، اور اس کا سبب وہ دو امرِ بالا تھے۔ پس لامحالہ ان دو امروں کا ازالہ مرجع اخیر ہوا تمام تر اصلاحات کا۔
پس یہ تحریرِ مختصر انہیں دونوں امورِ مذکورکی اصلاح ہے۔ یہ تفصیلی تعیین ہے اس مبحث کی۔ پس بنا بر تقریر ہذا اس تحریر کے دو جز ہوں گے: ایک عام اصحاب کو ان کی ان اغلاط پر متنبہ کرنا جو درباب علم و اہلِ علم ان کو واقع ہورہی ہیں۔ دوسرا خاص حضرات اہلِ علم کو ان کے بعض امور اصلاحیہ کی طرف متوجہ کرنا جو علم و عمل کے متعلق ہیں۔ اور چوں کہ یہ سب اصلاحاتِ عامیہ و خاصیہ علمِ دین کے حقوق مہتم بالشان سے ہیں اس لیے اس تحریر کا نام حقوق العلم اور اس کے پہلے جز کا عنوان ’’حُقُوْقُ الْعِلْمِ عَلَی الْعَوَامِ مِنْ أَھْلِ الإِْسْلَامِ‘‘ اور دوسرے جز کا لقب ’’حُقُوْقُ الْعِلْمِ عَلَی الْعُلَمَائِ الْأَعْلَامِ وَالطَّلَبَۃِ الْکِرَامِ‘‘ تجویز کرتا ہوں۔ اور ان دونوں جزوں کو دو باب پر، پھر ہر جز کے مجموعی مضامین کو ایک ایک فصل پر منقسم کرتا ہوں۔
محرک اس کے (کہ وہ اس حیثیت سے مستحق دعائے خیر کے ہیں) مشفقی مکرمی منشی فضل حسین صاحب مالک رسالہ ’’ضیاء الاسلام‘‘ مراد آباد ہیں۔ اور سببِ تحریک (کہ وہ اس حیثیت سے مستحق دعائے برکت و اعانت ہے) ان کا ایک نیا پرچہ مسمی بہ ’’المشیر‘‘ ہے جس کا موضوع خاص علومِ دینیہ کی خدمت ہے۔ اس کے جس پہلو کے بھی متعلق ہو جس کا سلسلہ انہوں نے اپنے پرانے پرچہ ’’ضیاء الاسلام‘‘ ہی سے بقدر ضرورت شروع کردیا تھا، مگر بیعۃً اور استقلال میں ماہیۃً و اثراً جو تفاوت ہے اس نے ایک نئے پرچہ کی ضرورت کوبھی ثابت کردیا، اور اسی ضرورت سے مجھ کو اس کی تحریک کی۔ پس امتثالا لأمر الممدوح واحتسابًا وخدمت دین میں اس تحریر کو اس پرچہ کی نذر کرتا ہوں۔ اور اس تحریر کے ختم پر عجب نہیں کہ دوسرے مبحث کے ذریعہ سے اور کوئی خدمتِ دین تجویز کرکے اس پرچہ کی نذر کرسکوں۔ واللّٰہ الموفق۔
اَلْبَابُ الْأَوَّلُ