مدح کی جاتی ہے اور آبرو بڑھتی ہے۔ پھر اگر ایسا بھی ہوا تو اصرار علی الباطل کے مفاسد دنیویہ و اخرویہ کے مقابلہ میں تھوڑی سی سبکی بہت سہل ہے۔ اور بھی بعض ضروری اصلاحات ہیں جن کو میرے مشفق مولوی عبداللہ صاحب گنگوہی نے اپنی ایک تحریر مسمی بہ ناصح الطلبہ میں بیان کیا ہے جو کہ اس رسالہ کے آخر میں ملحق ہے اس کو بھی ضرور ملاحظہ فرمالیا جائے۔
چوتھی فصل:
واعظین و مصنّفین اور مفتیوں کی اصلاحات
واعظین و مصنّفین و مفتیین کی اصلاحات میں چوں کہ مثل درس کے جس کا ذکر اوپر ہوا وعظ و تصنیف و افتا بھی من جملہ وظائف اہلِ علم کے ہے اس لیے اس کے متعلق اصلاحات بھی علی الترتیب قابل ذکر ہیں۔
اہلِ علم کا وعظ نہ کہنا غلط ہے:
اصلاحات متعلقِ وعظ۔ ایک کوتاہی تو وعظ نہ کہنے کی ہے کہ اکثر اہلِ علم کو دیکھا ہے کہ وعظ کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ اس سے نفور اور اس کی تحقیر کرنے والے ہیں اور اس سے عار کرتے ہیں اور وعظ کہنے کو خلافِ شانِ علم سمجھتے ہیں اور یہ خطائے عظیم ہے۔ اصل طریقہ تعلیم دین کا جس کے واسطے حضرات انبیا ؑ مبعوث ہوئے یہی وعظ و ارشاد ہے جس کے ذریعے سے تبلیغِ دین فرماتے تھے، باقی درس و تالیف وغیرہ تو اس کے تابع ہے کیوں کہ سلف میں بوجہ اہتمامِ حفظ و تدوین صرف زبانی روایت و خطبات عامہ پر قناعت اور وثوق کیا جاتا تھا بعد میں حفظِ علوم کے لیے درس و تالیف کی ضرورت ہوئی۔ پھر اس حفظ سے ظاہر ہے کہ مقصود وہی تبلیغ و خطاب زبانی ہے جس کی قسمِ عام کو وعظ کہا جاتا ہے۔ پس مقصود بالذات اس تمام تر اشتغال بالدرس والتالیف سے وعظ ہی ٹھہرا۔ پس مقصود بالذات کی اماتت کتنی بڑی خطا ہے۔