طبیعت کے لوگ انگریزی پڑھتے تو ان سے بھی زیادہ رذائل ان میں پائے جاتے کیوں کہ علومِ دینیہ میں تعلیم تو ہے تہذیب کی، وہاں تو یہ بھی نہیں۔
اور اس تقریر سے یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ اس الزام کا زیادہ مورد معزز اصحاب کا طبقہ ہے، ان کے اعراض کے سبب دوسرے خاندان کے لوگ اہلِ علم میں زیادہ پائے گئے، ان کو دیکھ کر بقاعدۂ للأکثر حکم الکل سب پر یہ گمان ہوا۔ اگر یہ خاندانی لوگ علومِ دینیہ کی طرف توجہ کرتے اور اپنی اولاد کو اس میں کامل بناتے تو کثرت سے ۔ُعلما۔َ ان میں پائے جاتے اور بوجہ علوِ۔ّ خاندان کے ان میں فضائلِ طبیعیہ زیادہ ہوتے اور رذائلِ مذکورہ مفقود ہوتے۔ تو جب اکثر ۔ُعلما۔َ ایسے نظر آتے تو للأکثر حکم الکل کے قاعدہ سے ۔ُعلما۔َ کو جامع فضائلِ اخلاقیہ سمجھا جاتا اور علمِ دین پر اس اثر کا گمان نہ ہوتا۔ چناں چہ جو ۔ُعلما۔َ خاندانی ہیں پھر خصوص اگر ان کو اہلِ طریق کی صحبت میسر ہوگئی ان میں سے تو کسی کو پست خیال، کم ہمت، تنگ چشم دکھلایئے گو کپڑے اور سامان ان کے پاس امیرانہ نہ ہوں مگر اس میں بھی شان ان کی یہ ہے:
ببیں حقیر گدایان عشق را کایں قوم
شہان بے کمر و خسروان بے کلہند
گدائے میکدہ ام لیک وقت مستی میں
کہ ناز بر فلک و حکم برستارہ کنم
موحد چہ برپائے ریزی زرش
چہ شمشیر ہندی نہی برسرش
امید و ہراسش نباشد زکس
ہمین است بنیاد توحید وبس
بلکہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ بدون علمِ دین کے فضائل اخلاقیہ و سرچشمی و بلند نظری و عالی دماغی تہذیب و اعتدالِ افعال و انتظامِ اقوال میسر ہونا ممکن نہیں۔ چناں چہ بے علم اُ۔َمرا میں ان اخلاق کا کہیں نام بھی نہیں ہوتا، لیکن مال کی بدولت خوشامدیوں کا اجتماع رہتا ہے اور وہ تحسین کرتے رہتے ہیں اس لیے ان عیوب پرپردہ پڑا رہتا ہے۔ بقول مولانا:
خواجہ را مال است و مالش عیب پوش
لیکن محققین کی نظر میں وہ پردہ سا۔ِتر نہیں۔ وہ اس حالت میں بھی ان کو قابلِ قدر نہیں سمجھتے، بلکہ بعض اخلاق تو ایسے مذموم ہوتے ہیں کہ عوام بھی نفرت کرتے ہیں مگر ڈر کے مارے کچھ کہہ نہیں سکتے، اور بعض اوقات پیچھے کہتے بھی ہیں۔