کے جائز ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر محض اشاعتِ احکام حسبۃً للہ کرے اور لوگ متفرق طورپر کچھ خدمت کردیں اور قلب میں کچھ طمع نہ ہو گو احتمال ووسوسہ ہو وہ بھی جائز ہے۔ یہ دونوں صورتیں اسی قاعدۂ مذکورہ بابِ اول فصلِ ثانی میں داخل ہیں۔
اور امتحان اس کا کہ یہ کام حسبۃ للہ کیا جاتا ہے اور جو کچھ ملتا ہے وہ بطور جزائے حبس کے ہے، یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ وعظ کہنے کے واسطے جانے کے لیے یہ شخص کن مقامات کو منتخب کرتا ہے۔ آیا ان مقامات کو جہاں روپیہ ملنے کی زیادہ امید ہو، یا ان مقامات کو جہاں تبلیغِ احکام کی زیادہ ضرورت ہو۔ صورتِ اول میں یہ شخص اس قاعدۂ جواز کا مورد نہ ہوگا۔ دوسری صورت میں ہوگا اور یہی امتحان ہے تدریسِ علومِ دینیہ کی نوکری کرنے والے کا۔ اس شخص کو کام مقصود ہے یا مال مقصود ہے، اگر اس کی نظر تنخواہ پر ہوگی تو اگر ایک جگہ گذر ہوتا ہو اور وہاں علومِ دینیہ کی ضرورت بھی زیادہ ہو تو ایسی جگہ کو چھوڑ کر ترقی پر نہ جائے گا، اور نہ خودکوشش کرکے ایسی جگہ جانا چاہے گا۔ اور ۔ُفقہا۔َ نے جو تعلیم علومِ دینیہ یا وعظ پر اُجرت کی اجازت دی ہے مراد اس سے یہی صورت ہے، ورنہ اجرت علی الطاعات المقصودۃ المخصوصۃ بالاسلام کو حنفیہ ؒ بوجہ نہی کے کسی طرح جائز نہیں رکھتے اور غالب یہ ہے۔
(اور اگر کسی محقق شافعی سے تحقیق کیا جائے تو کیا عجب یہ ظن صحیح نکلے) کہ شافعیہ جو بعض طاعات کی اجرت کو جائز رکھتے ہیں جیسے تعلیمِ قرآن و علومِ دین، وہ مقید ہوگا اس صورت کے ساتھ جب کہ ثواب مقصود نہ ہو۔ اور اس صورت میں وہ بھی اس نہی کے مخالف نہ ہوں گے جس سے حنیفہ نے تمسّک کیا ہے، جس میں قوس کے ہدیہ لینے کی نسبت سوال کیا گیا ہے کہ وہاں قرآن مجید ثواب کے لیے پڑھایا تھا۔ اور اس تقریر پر ۔ُفقہا۔َئے حنفیہ ؒ متقدمین و متاخرین میں اجرت علی التعلیم کے جواز و عدمِ جواز میں اختلاف لفظی ہے ورنہ حقیقتاً اجارہ کے ناجائز اور صورت اجارہ کے جائز ہونے میں اختلاف کی گنجایش معلوم نہیں ہوتی۔ اور جواز میں جو یہ قید لگائی ہے کہ قلب میں کچھ طمع نہ ہو اس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جس کو شیخین ؒ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فَمَا جَائَکَ مِنْ ہٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْہٗ، وَمَا لَا تُتْبِعْہٗ نَفْسَکَ۔1
احتمال، وسوسہ، طمع اور اشراف میں فرق:
اور احتمال و وسوسہ اور طمع و اشراف میں فرق یہ ہے کہ اگر خیال ہوا کہ شاید کچھ ملے، نہ ملنے سے اذیت نہ ہوئی تو صرف وسوسہ تھا، اور اگر ایذا اور رنج ہوا اور قلب میں شکایت اور ناگواری ہوئی کہ ان لوگوں نے کچھ نہیں دیا تو طمع اور اشراف